۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
News ID: 394997
6 دسمبر 2023 - 15:57
تقویٰ

حوزه/ مدارسِ اسلامیہ کو دین کا قلعہ کہا اور سمجھا جاتا ہے، ان دنوں اگر مدارس اسلامیہ کے طالبان علوم نبوت کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ طالبان علوم نبوت اپنے مقصد و ہدف سے کوسوں دور ہورہے ہیں۔

تحریر: محمد طاسین ندوی، استاد دارالعلوم نور الاسلام جلپاپور سنسری نیپال

حوزه نیوز ایجنسی| مدارسِ اسلامیہ کو دین کا قلعہ کہا اور سمجھا جاتا ہے، ان دنوں اگر مدارس اسلامیہ کے طالبان علوم نبوت کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ طالبان علوم نبوت اپنے مقصد و ہدف سے کوسوں دور ہورہے ہیں۔ مدارس کے ہاسٹل میں رہنے والے طلبہ کو بھی اپنے مستقبل کو روشن کرنے اور اپنے اہداف میں کامیاب ہونے کی بالکل فکر نہیں رہی، جبکہ قدیم زمانے میں طلباء مدراس اسلامیہ کی فکر بہت ہی وسیع و مثبت اور مضبوط ہوا کرتی تھی، آخر ایسا کیوں ہورہا ہے مبصرین کہتے ہیں کہ اس وقت دنیا کے اندر مادیت کا غلبہ ہورہا ہے اور ہر عمر کے افراد اس چکی میں پسے جارہے ہیں۔۔

طلباء مدارس اسلامیہ کے ذہن و دماغ پر بھی مادیت کی حکمرانی ہے تو انہیں نافع اور ضار چیزیں کیسے سمجھ میں آئیں گی، ہاسٹل سے لے کر درسگاہ تک اور گھر سے لے کر باہر تک گو ہر جگہ مال و متاع جاہ و منصب حکومت و حکمرانی کی بات کا پہرہ ہے ، عوام کے ساتھ خواص بھی مادیت کا رونا رو رہے ہیں، مدارس، مکاتب، خانقاہ، مساجد ہر جگہ سے نورانیت رخصت ہورہی ہے، جس جگہ جائیں جہاں بیٹھیں جن سے باتیں کریں سبھوں کی زبان پر مال ہی مال ہے، ایسے پر آشوب و پر فتن دور میں ہم اپنی زندگی کی صبح و شام کررہے ہیں جس میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مال و منصب کے بغیر زندگی نامکمل و ناتمام ہے۔

اس لئے ہم طالبان علومِ نبوت کو چاہیے کہ ہم اپنے اسلاف کے نقش پا پر چلنے کی کوشش کریں، وہ اس طرح سے کہ علومِ دینیہ کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی گزر بسر کرنے کے لیے کسی حرفت و صنعت اور کوئی ایسا محترم پیشہ اپنائیں جس کی آمدن کے ذریعے ہم اپنے اہل و عیال والدین اعزء و اقارب کے لئے کچھ کام آسکیں، خیر القرون کا دور ختم ہوا، لوگوں کے دلوں سے تقوی خشیت الٰہی اخلاص رخصت ہوگیا، طلباء مدارس اسلامیہ کے ساتھ اساتذۂ مدارس کے اندر سے بھی وہ چیزیں رخصت ہوگئیں جو ان لوگوں کے اندر ہونی چاہیے تھی، یہ سارے امور جو اس جہان فانی میں رونما ہوئے ہیں یہ سب ہمارے دلوں کا قرآنی تعلیمات اور احادیث نبویہ سے دور ہونے کے نتائج ہیں، قرآن مجید احادیثِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم غرض ساری چیزیں پڑھتے اور سنتے ہیں لیکن ہمارے دلوں پر اثر نہیں کرتی، یہ سب ہمارے اعمال کے نتائج ہیں، دنیا چاہے جتنی ترقیاں کرلے جس مقام پر پہنچ جائے لیکن مسلمان کتاب اللّٰه اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے رخ کو پھیر لیا اور اللّٰہ کے بتائے ہوئے راستے پر جما نہیں رہا تو یقیناً وہ خسارے میں رہے گا، دنیا چند دن کی ہے چاہے ہم جتنا مال جمع کرلیں محل تعمیر کرلیں رنگ برنگ کی گاڑیاں خریدلیں سونا اور چاندی کے انبار لگالیں، لیکن فقط نام نہاد مسلمان ہیں وہ اس طرح کہ ہم اللہ کے عطا کردہ انعامات میں سے صدقہ و خیرات اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے بھاگتے ہیں اپنے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں عوام الناس کے مفاد کی پرواہ نہیں کرتے تو یہ سارے مال و جائیداد ہمارے ضرور ہیں لیکن روز محشر ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے، بارگاہ الہٰی میں ہمارے خلاف گواہی دیں گے اور کہیں گے کہ یہ بندہ آپ کے نوازشات سے خوب لطف اندوز ہوا اور صندوقوں میں سینت سینت کر اور اپنے طاقوں میں سجا سجا کر رکھا تھا، حقوق اللّٰہ کی پرواہ نہیں کی اور حقوق العباد سے نہیں گھبرایا اپنے مفاد کو مقدم رکھا بے کسوں غریبوں مفلسوں کے حالات پر ترس نہیں کھایا اس طرف بالکل توجہ نہیں کی پھر مشیت الٰہی کو جوش آیا اور ہمیں نوع بنوع کے اختبارات و امتحان سے دوچار کیا تاکہ ہم اب بھی ہوش کے ناخن لیں اور ہمیں اپنی عاقبت کی فکر دامن گیر ہو تاکہ ہماری عاقبت برباد ہونے سے بچ جائے۔۔!!! وما ذلك على بعزيز.

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .