۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
حضرت فاطمه زهرا

حوزہ/ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا فیض انسانوں سے بھری اس دنیا کے کسی چھوٹے سے گروہ تک محدود نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو پوری انسانیت حضرت فاطمہ (س) کی احسان مند نظر آتی ہے۔خاتون جنت ایک مسلمان عورت کے لئے مکمل طور پر نمونۂ عمل ہے۔

تحریر: سیدہ آیت فاطمه نقوی

حوزہ نیوز ایجنسی| حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا فیض انسانوں سے بھری اس دنیا کے کسی چھوٹے سے گروہ تک محدود نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو پوری انسانیت حضرت فاطمہ (س) کی احسان مند نظر آتی ہے۔خاتون جنت ایک مسلمان عورت کے لئے مکمل طور پر نمونۂ عمل ہے۔

ایک مسلمان عورت کو ہمیشہ علم و فراست کی جستجو میں رہنا چاہیے،روحانی اور اخلاقی حوالے سے خود سازی میں کوشاں رہنا چاہیے،اسے ہر قسم کے میدان میں آگے آگے ہونا چاہیے۔۔ہم یہاں پر خاتون جنت سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا کے چند فرامین نقل کر رہے ہیں اور ان سے حاصل ہونے والے پیغامات۔

1ـ قالَتْ (عليها السلام): مَنْ أصْعَدَ إلىَ اللّهِ خالِصَ عِبادَتِهِ، أهْبَطَ اللّهُ عَزَّوَجَلَّ لَهُ أفْضَلَ مَصْلَحَتِهِ.

1_ جو شخص خدا کی بارگاہ میں اپنی خالص عبادت بھیجے گا اللہ سبحانہ اس کے لئے بہترین مصلحت نازل فرمائے گا۔

1: ہمیں اس حدیث پیغام یہ ملتا ہے:جو بھی تمہارا عمل ہو چاہے واجب میں سے ہو یا مستحب میں سے سب قربةً الی اللہ یعنی صرف خدا کے لیے ہو کسی غیر اللہ کی خاطر نہ ہو تبھی آپکا عمل قابلِ قبول ہوگا۔پھر خدا اسی انسان کے لیے آسانی پیدا کرے گا دنیا و آخرت میں۔ یہ ہی بڑی کامیابی ہے۔

2_قالَتْ(عليها السلام): خَيْرٌ لِلِنَساءِ أنْ لايَرَينْ الرِّجالَ وَ لا يَراه‍ُنَّ الرِّجال.

2_عورتوں کے لئے بہتر ہے کہ وہ مردوں کو نہ دیکھیں اور نہ ہی مرد انہیں دیکھیں۔

2: اس حدیث سے ہمیں پیغام ملتا ہے:عورت کو ہمیشہ پردے میں رہنا چاہیے،کیونکہ جب وہ پردے میں ہوگی تو مرد اس کو شہوت کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکے گا۔اسی طرح مرد خود کو اتنا پاکیزہ بنائے کہ کوئی عورت اس کی طرف غلط ارادے سے نا دیکھے۔

3_قالَتْ(علیھا السلام) جَعَلَ اللّہُ الاْیمانَ تَطْھیراً مِن الشَرْكِ، وَ الصَّلاةَ تَنْزيه‍اً لَکُمْ مِنَ الْکِبْرِ،وَالزَّکاةَ تَزْکِيَةَ لِلنَّفسِ،وَنِماءَ فِي الرّزقِ،وَ الصَيامَ تَثْبيتاً لِلاْخْلاصِ،وَ الحَجَ تَشّييداَ لِلدَينِ.

3_اللہ نے تمہارے لئے ایمان کو شرک سے پاک رکھنے والا،نماز کو تمہارے لیے تکبر سے دور رکھنے والا اور زکات کو تمہارے نفس کی پاکیزگی اور رزق کو وسعت دینے والا ،روزے کو اخلاص میں ثبات عطا کرنے والا اور حج کو دین کی مضبوطی قرار دیا ہے۔

3:اس فرمان سے ہمیں پیغام ملتا ہے: خدا پر جو بھی ایمان رکھے گا کہ "خدا وحدہُ لا شریک له" ہے تو خدا اُسے شرک سے پاک رکھے گا۔

نماز انسان کے لیے انکساری کی علامت ہے جو انسان کو تکبر جیسے مرض سے محفوظ رکھتی ہے۔

زکات ایک بہترین عمل ہے جس سے انسان کے رزق میں برکت اور انسان کی پاکیزگی ہے۔

روزا انسان کو پر خلوص رہنے پر قائم رکھتا ہے اور احساس پیدا کرتا ہے۔

ہر مسلمان کو ایک دوسرے سے متحد رہنا چاہیے اسی میں دین کی مضبوطی ہے کیونکہ سب کا خدا ایک سب کا رسول ایک۔

4_قالَتَ(عليه‍ا سلام) إنَ کُنْتَ تَعْمَلُ بِما أمَرْناكَ وَ تَنْتَه‍ي عَمَا زَجَرٔناكَ عَنْهُ قَأنٔتَ مِنْ شيعَتِنا، وَ إلاّ فَلا.

4_اگر تم ہمارے دستور پر عمل کرو اور ہماری منع کردہ چیزوں سے پرہیز کرو تو تم ہمارے شیعہ ہو ورنہ نہیں۔

4:اس فرمان سے ہمیں پیغام ملتا ہے: عاشق ہمیشہ اپنے محبوب کی بات پر سرِ تسلیم خم کرتا ہے،کیونکہ وہ اس کا عاشق ہے۔

ہمارے اور آئمہ علیہم السلام کے بیچ میں بھی عاشق اور محبوب کا رشتہ ہے اگر ہم واقعی ان کے سچے عاشق ہیں تو ان کی بتائی گئی ہر بات پر عمل کریں گے،اگر ہمارے عمل میں کوتاہی ہے تو ہم سچے عاشق نہیں ہیں۔

5_قالَتْ(عليها سلام): يا أبَا الحَسَن، إنّي لأ سْتَحي مِنْ إله‍ي أنْ أکَلَّفَ نَفَّسَكَ ما لا تَقَّدِرُعَلَيْهِ.

5_اے ابو الحسن! میں اپنے پروردگار سے شرم کرتی ہوں کہ آپ کو کسی ایسی چیز کی زحمت دوں جسے آپ نہ کرسکتے ہوں۔

5:اس فرمان سے ہمیں پیغام ملتا ہے: ہر عورت کو خدا سے شرم کرنی چاہیے جب وہ اپنے شوہر سے کوئی ایسی فرمائش کرے جو وہ پوری نا کرسکتا ہو۔

4-قَالَتْ(عليها سلام): لا يَلُومَنَّ أمَّرُءٌ إلاّ نَفْسَهُ، يَبيتَ وَ في يَدِهِ ريحُ غَمَر.

5_جس آدمی کے ہاتھ میں کھانے کی بو بسی ہوئی ہے وہ اسی حال میں سوجائیں اور اسے کوئی گزند پہنچے تو اپنے سواء کسی کو ملامت نہ کرے۔

6: اس فرمان سے ہمیں پیغام ملتا ہے: ہاتھوں پر کھانا لگا ہو اور کوئی سوجائے اور اسی حال میں اس کا کوئی نقصان ہو تو وہ خود زمہ دار ہے، کیونکہ آئمہ علیہم السلام کی احادیث میں ہاتھ صاف کرکے سونے کی تاکید کی گئی ہے، اگر پھر بھی کوئی ایسا نا کرے تو وہ خود زمہ دار ہے اپنی اس حالت کا۔

7_قالَتْ(عليها سلام): إنْ لَم يَکُنْ يَرانى فَإىٔي أراهُ، وَ ه‍ُوَ يَشُمُّالريح.

_اگر وہ (نابینا) مجھے نہیں دیکھ سکتا تو میں اسے دیکھ سکتی ہوں اور وہ ہوا تو سونگھ سکتا ہے، اس فرمان سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے: بھلے ہی کوئی شخص نابینا ہو وہ ہمیں نہیں دیکھ سکتا ہے لیکن ہم انہیں دیکھ سکتے ہیں،وہ ہماری خوشبو محسوس کرسکتا ہے۔اس لیے نابینا شخص سے بھی پردہ کرنا واجب ہے۔

حوالہ جات:

(بحارالا نوار:ج 43، ص 91، ح 16، إ حقاق الحقّ:ج 10، ص 258).

(کنزل العمّال: ج ۱۵، ص ۲۴۲، ح ۴۰۷۵۹.)

(أمالى شیخ طوسى : ج ۲، ص ۲۲۸.)

(بحارالانوار، ج 65، ص156)

(احتجاج طبرسی، ج۱، ص۲۵۸)

[كشف الغمه 1: 466.]

(بحارالأنوار: ج ۴۳، ص ۵۴، ح ۴۸)

(بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار

الأئمة الأطهار علیهم السلام , جلد۶۷ , صفحه۲۴۹)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .