۱۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 30, 2024
روشنی تھک جائے گی

حوزہ / قم المقدسہ میں مقیم اردو کے معروف شاعر جناب عباس ثاقبؔ کا دوسرا مجموعۂ غزلیات”روشنی تھک جائے گی“ کے عنوان سے حال ہی میں شائع ہوکر منظر عام پر آچکا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، قم المقدسہ میں مقیم اردو کے معروف شاعر جناب عباس ثاقبؔ کا دوسرا مجموعۂ غزلیات”روشنی تھک جائے گی“ کے عنوان سے حال ہی میں شائع ہوکر منظر عام پر آچکا ہے، جسے فارسی اور اردو کے نمائندہ معروف شاعر جناب احمد شہریارؔ اپنے اشاعتی ادارے "شہریار پبلیکیشنز" سے شائع کیا ہے۔ جناب احمد شہریارؔ نے عباس ثاقبؔ اور دوسرے شعرا کی کچھ کتابیں رہبر معظم کی خدمت میں پیش کیں۔

رپورٹ کے مطابق 15 رمضان المبارک امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے موقع پر رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی کے ہاں سالانہ شعری نشست کا انعقاد ہوا۔ نشست میں دیگر شعرا کے ساتھ فارسی اور اردو کے نمائندہ معروف شاعر جناب احمد شہریارؔ نے مسلسل ساتویں مرتبہ پاکستان کی نمائندگی میں شرکت کا اعزاز حاصل کیا۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے اشاعتی ادارے "شہریار پبلیکیشنز" سے شائع شدہ تین کتابیں بھی رہبر معظم کی خدمت میں پہنچائیں جن میں سے ایک مجموعہ ٔ غزلیات قم المقدسہ میں مقیم اردو کے معروف شاعر جناب عباس ثاقبؔ کا بھی ہے، جو "روشنی تھک جائے گی" کے عنوان سے حال ہی میں شائع ہوکر منظر عام پر آچکا ہے۔

یاد رہے کہ یہ جناب عباس ثاقبؔ کا دوسرا شعری مجموعہ ہے اور اس سے قبل ان کا ایک شعری مجموعہ ”آئینے جل رہے ہیں“ کے نام سے شائع ہوکر ادبی حلقوں سے دادِ تحسین حاصل کرچکا ہے۔

عباس ثاقبؔ کے دوسرے مجموعۂ غزلیات "روشنی تھک جائے گی" کی اشاعت اور رہبر معظم انقلاب حفظہ اللہ کی خدمت میں بطورِ ہدیہ

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جناب عباس ثاقبؔ قم المقدسہ کی ایک فعال ادبی انجمن "بزم استعارہ" کے بانی ارکان میں سے ہیں اور یہ بزم قم المقدسہ میں اردو شعر و ادب کی ترویج میں پچھلے کئی سال سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہے۔

ذیل میں آپ تمام احباب کی خدمت میں "روشنی تھک جائے گی" کا ایک انتخاب بھی پیش خدمت ہے جو جناب احمد شہریارؔ نے کیا ہے:

اب چومنے آتی ہیں مجھے کاہکشائیں

چہرے پہ مرے گردِ رہِ شہرِ نبیؐ ہے

-*-

اسی لیے میں اکیلا رہا زمانے میں

کہ اتنا تیز نہ تھا رابطے بنانے میں

ہم ایسے لوگ خدا سا مزاج رکھتے ہیں

ذرا سی دیر لگے گی ہمیں منانے میں

-*-

ہوکے رہنا تھا یہ تہذیبی تصادم ایک دن

یار میرے شہر سے تھے اور میں دیہات سے

-*-

ہم نے ہر حال میں اک شان سے برتا ہے تجھے

زندگی اور کوئی کام ہمارے لائق؟

دو گھڑی بیٹھ کے ثاقبؔ کی غزل سنتے ہیں

اس کے اشعار بھی ہوتے ہیں گزارے لائق

-*-

ثاقبؔ! جو تو کہے وہ ہمیں جاں سے ہے عزیز

اب تجھ سے کوئی کیسے کرے اختلاف، دوست!

-*-

میرے چاروں طرف ہو میرا ہجوم

ہر طرف آئنے لگا دیے جائیں

-*-

ولیؔ و غالبؔ و سوداؔ و ذوقؔ و میرؔ سمیت

ترے ہی کشتہ ہیں سب بندہ حقیر سمیت

-*-

شاخچے سے گرا ہوا پتا

عاشق بے اماں سے کم نہیں ہے

-*-

ثاقبؔ! کبھی دستک ہی نہ دی تو نے وگرنہ

دل نے تو ہواؤں کی بھی دستک پہ کہا: ”کون؟“

-*-

ہر ملنے والے سے ملنا پڑتا ہے دو بار

ہر چہرے کے پیچھے بھی اک چہرہ ہوتا ہے

-*-

دیکھ رہے ہیں اک دوجے کو ملنا ہے دشوار

تیرے میرے بیچ کھڑی ہے شیشے کی دیوار

-*-

ہمارا حال کسی اور کی زبانی کیوں؟

ہمارے منہ میں بھی آخر زبان ہے پیارے

میں اس کے سامنے اس کو نہ پا سکا، ثاقبؔ!

یہ لامکان تو پھر لامکان ہے پیارے

-*-

ہوائیں جھانکتی رہتی ہیں میرے کمرے میں

کہ اِک فریم میں کوئی دِیا بنا ہوا ہے

-*-

رہتا ہوں تیری یاد کی پرچھائیوں کے ساتھ

بستے ہیں اور لوگ بھی خالی مکان میں

-*-

تشنگی میں ساقی نے یوں بھی آزمایا ہے

ہاتھ بھی بندھے رکھے، جام بھی بھرا رکھا

-*-

کس قدر جلد فراموش ہوا ہوں، ثاقبؔ!

میں تو سمجھا تھا مجھے سارا جہاں چاہتا ہے

-*-

ثاقباؔ! ایسے اُبھر آئیں جبیں پر سلوٹیں

جیسے گزرا ہوں جہاں بھر کی پریشانی سے میں

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .