حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کے نمائندے حجۃ الاسلام و المسلمین سید مرتضیٰ کشمیری نے برطانیہ اور یورپ کے علماء اور مبلغین سے ملاقات کی ، ان کے ساتھ تمام اسلامی دنیا کو قربِ رمضان المبارک کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آج، نجف اشرف کے پاس نبی اکرم (ص) کے شہر ِعلم کی برکات کی شکل میں علم و دانش کا ایک عظیم ورثہ ہے، یہاں کے علمی ماحول میں وہ حوزہ علمیہ موجود ہے، جو دنیا کے قدیم ترین مذہبی اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ خدا کی عنایت اور توجہ سے تقریباً بارہ ہزار ملکی اور غیر ملکی طلبہ اس میں مقیم ہیں ، جو مذہبی اور عقائدی علوم سے استفادہ کرتے ہیں اورا خلاقیاتِ اہل بیت (ع) کے زیر سایہ تربیت پاتے ہیں، اور ان کےتمام معاشی اور رہائشی امور کی مکمل کفالت کی جاتی ہے۔
مرجع عالی قدر نے پانچ اہم باتوں پر زور دیا ہے جن کا ایک مبلغ اور عالم کے پاس ہونا ضروری ہے۔
اپنی سالانہ روایت کے مطابق، حجۃ الاسلام و المسلمین سید مرتضیٰ کشمیری نے برطانیہ اور یورپ کے تقریبا ۱۵۰؍ علماء سے ملاقات کی اور انہیں نجف اشرف کی مرجعیت علیا کی ہدایات اور نصیحتیں پہنچائیں، ان کی تقریر کا متن حسبِ ذیل ہے:
اس قوم پراللہ تعالیٰ کی برکتوں میں ایک اس قوم کےعلمی اور ایمانی مراکز کاتحفظ ہے، اور ان مراکز میں سے ایک نمایاں مرکز نجف اشرف کا شہر ہے، جو اپنی علمی اور فکری اصلیت کو سنبھالے ہوئے ہے، اور اسلامی دنیا کا ایک اختر تابناک بنا ہوا ہے۔ یہ وہ مقدس شہر ہے جو نبی ﷺکے شہرِعلم کے دروازے پرواقع ہے، اور علم و معرفت کا ایک بہت بڑا ورثہ یہیں موجود ہے۔
عظیم حوزہ علمیہ اسی شہر کی آغوشِ شفقت میں ہے، حوزہ علمیہ ایک ایسا موقراورقدیم تعلیمی ادارہ جودنیا کے قدیم ترین مذہبی اداروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ خدا کی خاص عنایت سے آج تقریباً بارہ ہزارعراقی اور غیر عراقی طلبہ اس مقدس شہر آکرچشمۂ علوم دینی سے سیراب ہورہے ہیں،اور اخلاقِ آل محمدؐ کی تربیت پاکراس آیتِ الہٰی کا مصداق بنے ہوئے ہیں: فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ۔ (سورہ توبہ: ۱۲۲)
(۔۔۔ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وه دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو واپس آکرڈرائیں، ممکن ہےوه ڈر جائیں۔)
مرجعیت علیا نے طلبہ کے حصول علم اور ایک عیشِ کریمہ کی تمام سہولیات فراہم کی کرنے کی ذمہ داری لی ہے،مزید برآں متاہل طلاب کیلئے درجنوں مکانات کی تعمیر کابھی بیڑا اٹھایا ہے تاکہ طلاب علوم دینی، طلبِ علم اور تفقہ فی الدین پر توجہ مرکوز کر سکیں۔
مرجعیت علیا نے تربیت ِمومنین اور اصلاح معاشرہ کے ضمن میں بھی کئی اہم امور پر زور دیا ہے، جن سے وعظ و نصائح میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے،بالخصوص اس ماہِ بارک کے روحانی موسم میں ۔ ان ہدایات میں سے کچھ یہ ہیں:
پہلا: قرآنی نہج پہ تربیت
اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم کتاب کو اسلامی قانون اور اخلاقیات کا بنیادی ماخذ بنایا ہے، کہ یہ دلوں میں جو کچھ ہے اس کے لیے ہدایت اور شفا فراہم کرتی ہے۔ قرآن صرف ایک کتاب نہیں ہے جس کی تلاوت کی جائے، بلکہ یہ زندگی کا مکمل ضابطہ ہے جو مومن کو اس کے تمام معاملات میں رہنمائی کرتا ہے، عبادت سے لے کر معاملات تک، اور اخلاق سے لے کر قوانین تک۔
شہزادی کونین جناب فاطمۃ الزہرا (ع) نے اس کتاب کی کیسی خوبصورت تعریف اپنے فدک کے خطبے میں بیان کی، جب انہوں نے مسلمانوں سے مخاطب ہو کر قرآن کے فضائل بیان فرمائے - ایک ایسی تقریر جو نسلوں تک باقی رہتی ہے، خاص طور پر اُن کے لیے جو حاملانِ علم و دین ہیں۔
آپ فرماتی ہیں: "تم اللہ کے بندے ہو، اور اس کے أوامر و نواہی کا محور، اس کے دین اور وحی کے حامل ہواوراپنی جانوں پر اللہ کے امانتدار ، قوموں تک اس کے پیغام کو پہنچانے والے ہو اور اپنے نفوس پر اس کے حقوق اورعہد کے ذمہ دار۔اور اس بقیۂ الہی کے ذمہ دار ہو جو اس نے تمہارے سپرد کی ہے: اور وہ ہے اللہ کی بولتی ہوئی کتاب، حقیقی قرآن، چمکتا ہوا نور، اور روشن شعاع، جس کی بصیرت واضح ، اسرار آشکار اورظاہر نمایاں ہے،جس کے ماننے والوں پر رشک کیا جاتا ہے،جو اپنےپیروکاروں کو رضوان الہی کی جانب لے جاتا ہے ۔جس کا سننا نجات کا باعث، جس کے ذریعہ تم خدا کی حجت نورانیہ ، اس کے واضح احکامات، اس کی ترسناک ممانعت، اس کے روشن دلائل، اس کےبراہین کافی، اس کی نفیس خوبیوں، اس کی دی گئی اجازتوں، اور اس کے مکتوب قوانین تک پہنچتے ہو... لہذا، اللہ سے ویسے ہی ڈرو جیسا ڈرنے کا حق ہے اور اس حال میں نہ مرنا کہ تم مسلمان نہ ہو۔
اور اللہ کی اطاعت کرو اس میں جو اس نے تم پر فرض کیا ہے اور جو اس میں جواس نے تم پر منع کیا ہے، کیونکہ اللہ کے بندوں میں صرف علماء ہی اس سے ڈرتے ہیں۔ " لہذا، مومن کو چاہیے کہ وہ اس عظیم کتاب کی تلاوت اور آیات میں تدبر و تفکر کے ذریعے اپنے دل کی تسلی کے لیے قرآن کو اپنے رستے کا ساتھی بنائے، ، اور اس کی روشنی سے اپنے امام کی پیروی کرے، خاص طور پر رمضان المبارک کے مہینے میں،جب اللہ تعالی کے قریب ہونے کے مواقع بڑھ جاتے ہیں ۔
دوسرا: نبی کریمؐ کی اخلاقیات
ایک اہم ترین مسئلہ جس پر زور دینا چاہیے وہ یہ ہے کہ نبی ﷺ اور ان کے پاک خاندان کی اخلاقیات کو اپنانا ضروری ہے، کیونکہ یہ مکمل انسان کے لیے ایک مثالی نمونہ ہیں۔ انہوں نے ہمارے لئے احادیث، خطبات، اور سیرت طیبہ کے ایسے خزانے چھوڑے ہیں جوایک انسان کامل کےعملی نمونے ہیں، بالخصوص جونہج البلاغہ ،صحیفہ سجادیہ اور ماہِ مبارک کے اس خطبے میں،مذکور ہےجسے حضرت علی (ع) نے نبی اکرم (ص) کے حوالے سے بیان کیا ہےکہ ایک مومن کے اندر اس مبارک مہینے میں اور دوسرےمہینوں میں کیسی خوبیاں ہونی چاہئیں۔
تیسرا: اپنی باتوں پر عمل کرنا
قابل توجہ ہے کہ ایک عالم کی سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اس پر عمل کرے جو وہ کہتا ہے، اور امام صادق (ع) نے اسی معنی پر زور دیا ہے: ’’تمہیں اللہ سے ڈرنا چاہیے، پرہیزگار ہونا چاہیے، محنتی رہنا چاہیے، سچ بولنا چاہیے، امانت کو پورا کرنا چاہیے، اچھے اخلاق کا حامل ہونا چاہئے، ایک اچھا پڑوسی ہونا چاہیے، اور بغیر زبان کے لوگوں کو اپنی سمت بلانے والا ہونا چاہئے، زینت کا سبب بنو شرمندگی کا باعث نہ بنو۔‘‘
صرف باتیں کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ عالم کو ایمان اور اخلاق کا زندہ نمونہ ہونا چاہیے، اپنے الفاظ میں ایماندار، اپنے افعال میں انصاف کرنے والا، کیونکہ یہی اُس کے اور معاشرے کے درمیان اعتماد کی بنیاد ہے۔
چوتھا: نوجوانوں کی دیکھ بھال
نوجونوں کے حوالے سےمرجعیت علیا کی خصوصی تاکید ہوتی ہے،، کیونکہ وہ قوم کا ستون اور مستقبل ہیں۔ انہوں نے ان دشمنوں کی لگاتار کوششوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو نوجوانوں کے اعتقادات کو مشکوک کرنے اور انہیں ان کے دین سے دور کرنے میں مصروف رہتےہیں۔ لہذا، نوجوانوں کو اسلامی اخلاقیات اور اقدار کے شعبے میں مضبوط کرنا ضروری ہے، اور ان کے ایمان کو قرآن کی ان آیات کے سہارے تقویت دینا چاہیے جو نیکی اور شرافت کی ترغیب دیتی ہیں اور اطاعت خداوندی اور نیک اعمال کا حوصلہ بخشتی ہیں، خاص طور پر وہ دلکش آیات جن میں جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر ہے۔
ہمارے جوانوں کیلئےآج، سوشل میڈیا کے ان چیلنجز کے پیش نظر جو ان کے ایمان کو متزلزل کرنے اور ان کے ذہنوں میں تخریبی خیالات بٹھانے کی کوششوں میں ہیں، ایسے علما کی شدید ضرورت ہے جو ان کے مسائل کو سمجھیں، ان کی تشویش کا خیال رکھیں، اور انہیں حکمت، شفقت اور اچھے مشورے سے راہ راست پر لائیں ۔
پانچواں: دیانتداری اور اچھا طرز عمل
غالباً ایک عالم کی سب سے نمایاں خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنی تمام حالتوں میں دیانتداری اور نیک کردارکے اعلیٰ ترین درجات کا حامل ہو، کیونکہ لوگ اس کی باتوں سے پہلے اس کے کردار پر نظر رکھتے ہیں۔ کیوں نہ ہو، جب کہ علماء انبیاء کے وارث اور ان کی شرافت، دیانت اور انصاف کے نمونہ ہوتے ہیں۔
دیانتداری ایک متوازن طرز زندگی ہے جو ایک عالم کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں نظر آنا چاہیے، لوگوں کے ساتھ رویہ سے لے کر عوامی معاملات کی انتظامیہ تک۔
حدیث میں دلچسپ فقرہ درج ہے :"عالم کا ایک گناہ معاف ہونے سے پہلے جاہل انسان کے ستر گناہ معاف ہو جائیں گے۔"۔ اور یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ عالم کے کندھے پر کیسی عظیم ذمہ داری ہے۔
آخر میں بس یہ عرض کرنا ہے کہ شہر نجف اشرف کے مسیرِ مقدس پر غور کرنے ولا ہر شخص بہ آسانی محسوس کرسکتا ہےکہ یہ مقدس شہر کس طرح جہالت اور گمراہی کی تاریکی میں قوم کی رہنمائی کیلئےمشعلِ راہ رہا ہے، اور اسلام کو کمزور کرنے کی تمام کوششوں کی راہ میں ایک ناقابل تسخیر رکاوٹ سمجھا گیا ہے۔
اور اس شہرِ باعظمت کا یہ عظیم کردار مرجعیت علیا اور حوزہ کے اساتذہ کی کوششوں کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا تھا جو ایک زمانے سے پیغامِ دین کو دنیا تک پوری ایمانداری اور تندہی سے پہنچاتے رہے ہیں۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ اس بلند علمی نشانی اور اس کی عظیم مرجعیت کو محفوظ رکھے، ہمیں اپنے بلند پیغام کا حامل بنا ئےعلم اور ایمان کی اشاعت میں شریک کرے، تاکہ دینِ مبینِ اسلام تاقیامِ قیامت بنی نوعِ انسانی کی رہنمائی کرتا رہے۔
والحمد لله رب العالمين، وصلى الله على محمد وآله الطاهرين
۲۳؍ شعبان المعظم ۱۴۴۶ھ









آپ کا تبصرہ