تحریر: مولانا سید رضی حیدر زیدی
حوزہ نیوز ایجنسی | علم ایک نور ہے مگر جب یہ نور کربلا کے لہو سے جلا پاتا ہے تو صرف کتابی معلومات نہیں رہتا بلکہ دلوں کو گرمانے والی حرارت، ذہنوں کو جھنجھوڑنے والی صدا اور باطن کو جگا دینے والی روشنی میں ڈھل جاتا ہے۔
ایسا ہی ایک نورانی تجربہ مجھے جامعہ بیت العلم، پھندیڑی سادات کے ترجمان شمارے "صداے علم" کے مطالعے کے دوران حاصل ہوا۔ یہ کوئی عام شمارہ نہیں بلکہ ایک فکری قافلے کی صدا ہے جو شعور کے دریچوں کو کھولتی ہے، دلوں کو تڑپاتی ہے اور انسان کو مقصدِ حسینی سے جوڑتی ہے۔
اس شمارے میں شامل تحریریں صرف صفحات پر ثبت کلمات نہیں بلکہ وہ صدائیں ہیں جو دل کی گہرائیوں سے نکلی ہیں اور قاری کے دل میں اتر جاتی ہیں۔
کبھی امام حسین علیہ السلام کی سیرت، کبھی عزاداری کا فلسفہ، کبھی اربعین کی مہکتی ہوئی راہیں اور کبھی مظلومیت کے خلاف قیام کا الہامی پیغام ہے۔ ہر مضمون ایک چراغ ہے جو اندھیروں کو چیرتا ہوا قاری کو بصیرت عطا کرتا ہے۔
تحریروں کا انداز سادہ، ادبی اور مؤثر ہے۔ نہ زبان بوجھل ہے، نہ اسلوب پیچیدہ۔ جیسے کوئی ہمدرد بزرگ ہمیں بیٹھ کر محبت، حکمت اور درد سے بھری داستانیں سنا رہا ہو۔
خصوصاً اربعین واک پر لکھا گیا مواد نہ صرف معلومات افزا ہے بلکہ دل کو کربلا کی فضاؤں میں لے جاتا ہے جہاں صرف قدموں کی آہٹ ہی نہیں سنائی دیتی بلکہ روح کی گہرائیوں میں تاریخ کی دھڑکنیں محسوس ہوتی ہیں۔
ادارتی ٹیم کی محنت، سلیقہ، اور حسنِ انتخاب قابلِ داد ہے۔ ہر مضمون با مقصد، بامعنی اور قاری کے قلب و ذہن پر اثر چھوڑنے والا ہے۔
میری نظر میں "صداے علم" ایک زندہ تحریر ہے… ایک فکری مشعل ہے… ایک شعوری عہد ہے۔ یہ شمارہ ان نوجوانوں کے لیے راستہ ہے جو صرف آنکھوں سے نہیں، دل و دماغ سے کربلا کو سمجھنا چاہتے ہیں۔
یہ شمارہ ان کے لیے ہے جو عزاداری کو صرف گریہ و ماتم نہیں بلکہ تحریکِ بیداری، فکرِ نجات اور میدانِ عمل سمجھتے ہیں۔
اس کی ہر سطر ایک سوال ہے… اور ہر صفحہ دعوتِ فکر۔
میری دلی دعا ہے کہ یہ آواز صرف ایک وقت کی گونج نہ بنے بلکہ نسلوں کے اذہان میں پیغامِ حسینؑ کو جاگزیں کر دے۔
اور یہ قلم جو "صداے علم" لکھ رہا ہے ہمیشہ علمِ کربلا اور فکرِ حسینی کا پیامبر بنا رہے۔
03:53 - 2025/07/29









آپ کا تبصرہ