حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بعض طلبہ کا اہم چیلنج اپنی علمی اور روحانی شناخت کے انتخاب میں تذبذب ہوتا ہے۔ اسی حوالے سے حجت الاسلام حمید وحیدی نے صحیفہ سجادیہ کی چالیسویں دعا کی روشنی میں "طُولِ امل" (طویل آرزوؤں) اور "بحرانِ شناخت" کے باہمی تعلق پر گفتگو کی ہے۔
انہوں نے کہا: حدیث شریف میں آیا ہے: «وَ اکفِنَا طُولَ الْأَمَلِ، وَ قَصِّرْهُ عَنَّا بِصِدْقِ الْعَمَلِ» یعنی امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ "اے خدا! ہمیں طولانی آرزوؤں سے محفوظ رکھ اور صدقِ عمل کے ذریعہ انہیں ہم سے کم کر دے"۔
حجت الاسلام وحیدی نے مزید کہا: اگر انسان اس جملے کے معنی پر غور کرے تو سمجھ جائے گا کہ اکثر افسردگی اور اضطراب کی جڑ "طولِ امل" ہے یعنی مستقبل کی غیر یقینی خواہشات اور طولانی امیدیں۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں: «حَتَّی لَا نُؤَمِّلَ اسْتِتْمَامَ سَاعَةٍ بَعْدَ سَاعَةٍ...» یعنی انسان ایسا نہ ہو کہ وہ ایک گھڑی کے بعد دوسری گھڑی یا ایک دن کے بعد دوسرے دن کی امید رکھے۔ جو شخص ہر لمحہ اگلے لمحے کی آرزو میں جیتا ہے، وہ اپنے "حال" سے غافل ہو جاتا ہے۔ یہی آرزوئے بقا اور مستقبل پر افراطی توجہ انسان کو اس کی "موجودہ زندگی" سےبھی دور کر دیتی ہے۔
انہوں نے کہا: بعض اسٹوڈنٹس اپنی تعلیم کو محض "نتیجہ محور" بنا لیتے ہیں؛ وہ سوچتے ہیں کہ "پڑھوں تاکہ کچھ بن جاؤں" یا "کسی مقام تک پہنچوں"۔ یہ طرزِ فکر انہیں اضطراب اور افسردگی میں مبتلا کرتا ہے کیونکہ مقصد ہمیشہ مؤخر رہتا ہے۔ درحقیقت درس پڑھنا ایک فریضہ ہے، جیسے نماز پڑھنا۔ اگر طالب علم یہ سوچے کہ "میں پڑھتا ہوں کیونکہ یہ میرا فرض ہے، خدا نے علم کا طلبگار بننے کا حکم دیا ہے"، تو اس کی فکر نتیجہ نہیں بلکہ عملِ صادق بن جاتی ہے۔ تب وہ "حال" میں جیتا ہے، نہ ماضی میں پچھتاوا رکھتا ہے نہ مستقبل کا خوف۔









آپ کا تبصرہ