حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کلچر ہاؤس نئی دہلی سے علمی و تحقیقی فصلنامہ راہِ اسلام کا 264واں شمارہ 130 صفحات پر مشتمل شائع ہوگیا ہے۔ اس شمارے میں عصرِ حاضر کے اہم فکری، سماجی اور مذہبی مباحث کو نہایت علمی معیار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، خصوصاً امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کی تعلیمات اور موجودہ دور کی تیزی سے بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی "خاص طور پر مصنوعی ذہانت" کے اثرات پر محققانہ گفتگو شامل ہے۔
اہم مقالات کی فہرست
اس شمارے میں شامل علمی و تحقیقی مقالات درج ذیل ہیں:
1. امام رضاؑ کے کلام میں حدیث فہمی کے اصول و ضوابط
2. اسلامی معاشرے میں محرومیت کے خاتمے کے لیے دینی و عوامی حمایت کی تقویت اور توسیع: سیرتِ امام رضاؑ کی روشنی میں
3. سماجی ڈھانچوں اور مذہبی اقدار پر مصنوعی ذہانت کے اثرات
4. ایمان اور مستقبل کی مصنوعی ذہانت: عصرِ حاضر کے تناظر میں تحقیقی جائزہ
5. علمِ فقہ میں مصنوعی ذہانت کا کردار: تقابلی اور تنقیدی مطالعہ
اسلامی معاشرے میں علم اور عمل کی بنیاد قرآن کریم، سنت نبویؐ اور ائمه معصومین علیہم السلام کی ہدایات پر استوار ہے۔ تاریخِ اسلام کے ہر دور میں یہ سوال سامنے آتا رہا ہے کہ ہم دین کے بنیادی مصادر سے کیسے رہنمائی حاصل کریں اور نئے مسائل کے حل کے لیے کس طرح ان اصولوں کو بروئے کار لائیں۔ امام رضاؑ کے ارشادات میں اس حوالے سے خاص طور پر روشنی ملتی ہے کہ حدیث کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے کن اصول و ضوابط کو ملحوظ رکھا جائے۔ یہ اصول ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ متنِ حدیث کو صرف الفاظ کے ظاہر تک محدود نہ کیا جائے بلکہ اس کے سیاق و سباق، قرآن سے ہم آہنگی اور عقلی دلائل کو بھی سامنے رکھا جائے۔ اس طرح آج کے قاری کے لیے بھی امامؑ کی تعلیمات ایک زندہ ہدایت ہیں۔
معاشرتی سطح پر اسلام کی سب سے بڑی فکر محروم طبقات کی دستگیری ہے۔ قرآن نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ سماج کی ترقی کا معیار صرف دولت اور طاقت نہیں بلکہ عدل و انصاف، اخوت اور مساوات ہے۔ امامیہ تعلیمات ہمیں یہ درس دیتی ہیں کہ دینی اور عوامی ادارے جیسے مساجد، مدارس، بیت المال، رفاہی انجمنیں اور سماجی تنظیمیں معاشرے کے کمزور اور پس ماندہ افراد کا سہارا بنیں۔ اگر یہ ادارے مضبوط اور فعال ہوں تو محرومیت کا خاتمہ ممکن ہے، ورنہ غربت اور طبقاتی تفریق سماج کے بنیادی ڈھانچے کو کمزور کر دیتی ہے۔
تاہم، عصرِ حاضر کا سب سے نمایاں سوال صرف غربت یا اداروں کی کمزوری نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار پیش رفت بھی ہے جس کی سب سے بهترین مثال مصنوعی ذهانت هےجو سماجی ڈھانچوں اور مذہبی اقدار پر اثر انداز هورهی هے اور جسے نظرانداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر انسان ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذهانت پر اندھا اعتماد کرتا هے تو یہ نه صرف سماجی تعلقات کو مشینی اور بے روح بناسکتی هے بکه روحانیت کو بھی کمزور کر سکتی ہے۔ اس کے برعکس اگر مصنوعی ذهانت کو ایمان ، اخلاق اور انسانی اقدار کی روشنی میں بروئے کار لایا جائے تو یہ انسانی زندگی کے ارتقاء اور بهبود کا مؤثر وسیله بھی بن سکتی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ امت مسلمہ اس بحث کو صرف سائنسی یا فنی دائرے تک محدود نہ رکھے بلکہ اس کے مذہبی، اخلاقی اور سماجی پہلوؤں پر بھی غور و خوض کریں۔
مصنوعی ذهانت نہ صرف ہماری معیشت، سیاست اور سماجی تعلقات کو بدل رہی ہے بلکہ یہ علمِ فقہ اور اسلامی حقوق کے میدان میں بھی نئی جہتیں کھول رہی ہے۔ آج یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا مصنوعی ذهانت قرآن و حدیث کی تشریح میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے؟ کیا یہ فقہاء کے سامنے مسائل کے تجزیے اور مقدمات کے فیصلوں میں سہولت پیدا کر سکتی ہے؟ اس کے امکانات یقیناً موجود ہیں، لیکن اس کے ساتھ خطرات بھی ہیں کہ کہیں یہ انسانی اجتہاد اور روحانی بصیرت کی جگہ نہ لے لے۔ اسلام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ٹیکنالوجی محض ایک وسیلہ ہے، فیصلہ کن حیثیت صرف وحی، عقل اور ایمان کو حاصل ہے۔
ایمان اور مستقبل کی مصنوعی ذهانت کے تعلقات کو سمجھنا اسی لیے اہم ہے کہ اسلام میں ایمان صرف ایک عقیدہ نہیں بلکہ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کی رہنمائی کرتا ہے۔ اگر ٹیکنالوجی ایمان کی رہنمائی کے بغیر آگے بڑھے گی تو یہ ترقی بربادی میں بھی بدل سکتی ہے۔ لیکن اگر ایمان کو بنیاد بنا کر مصنوعی ذهانت کو استعمال کیا جائے تو یہ امت مسلمہ کے لیے خدمت، علم اور عدل و انصاف کے فروغ کا ایک نیا وسیلہ بن سکتا ہے۔اسی پس منظر میں، راه اسلام کے اس شمارے میں ہم نے ان موضوعات پر گفتگو کی هے۔
آن لائن مطالعہ
اس شمارے کے مطالعہ کے لیے درج ذیل صفحات سے رجوع کریں:
یک صفحہ: Rahe Islam
دو صفحہ: Rahe Islam
مزید یہ کہ راہِ اسلام کے سابقہ شماروں اور ایران کلچر ہاؤس کی دیگر نشریات تک رسائی کے لیے نیچے دیا گیا ویب ایڈریس ملاحظہ کریں:









آپ کا تبصرہ