منگل 16 دسمبر 2025 - 09:44
علم اور ٹیکنالوجی فلسفے اور اخلاق کے بغیر ممکن نہیں: آیت اللہ اعرافی

حوزہ/ سربراہ حوزہ علمیہ ایران آیت اللہ علی رضا اعرافی نے کہا ہے کہ علم اور ٹیکنالوجی فلسفی اور اخلاقی بنیادوں کے بغیر نہ تشکیل پا سکتے ہیں اور نہ ہی پائیدار ترقی کی ضمانت بن سکتے ہیں، ہر سائنسی عمل کسی نہ کسی فکری اور اخلاقی پس منظر سے متاثر ہوتا ہے، اس لیے انسانی علوم کو ان بنیادوں سے الگ کرنا حقیقت کے خلاف ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سربراہ حوزہ علمیہ ایران آیت اللہ علی رضا اعرافی نے کہا ہے کہ اسلامی انسانی علوم، گامِ دومِ انقلاب کے عنوان سے رہبر معظم کے خطاب کی اساس اور اس کی روح ہیں، اور علم، فلسفہ اور اخلاق ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے بعض اہلِ فکر کے اس مؤقف پر تعجب کا اظہار کیا کہ اسلامی انسانی علوم کا کوئی وجود نہیں، جبکہ اس میدان میں متعدد علمی نظریات پیش کیے جا چکے ہیں۔

آیت اللہ اعرافی نے قومی کانفرنس “بیانیۂ گامِ دومِ انقلاب کے افق میں اسلامی انسانی علوم” کی اختتامی تقریب سے قم یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے علم و تحقیق کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ رہبرِ معظم انقلاب کی جانب سے بیانیۂ گامِ دوم میں پہلی اور بنیادی سفارش علم و تحقیق ہے، کیونکہ علم ہی کسی قوم کی عزت، طاقت اور خود مختاری کا اصل ذریعہ بنتا ہے۔

آیت اللہ اعرافی نے مغربی تہذیب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ مغرب نے علم کے ذریعے طاقت، دولت اور اثر و رسوخ حاصل کیا، لیکن اخلاقی اور فکری کمزوریوں کے باعث اس کا ماڈل انسانیت کی حقیقی سعادت کی ضمانت نہیں بن سکا۔ ان کے مطابق، مغربی علم بھی کسی نہ کسی فلسفیانہ بنیاد پر قائم ہے، تاہم رنسانس کے بعد اس کی فکری بنیادیں کمزور ہو گئیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ کوئی بھی علم یا ٹیکنالوجی فلسفے اور اخلاق سے کٹ کر ترقی نہیں کر سکتی۔ حتیٰ کہ تجرباتی علوم بھی کسی نہ کسی فکری اور اخلاقی پس منظر سے اثر قبول کرتے ہیں۔ اسلامی انسانی علوم اسی حقیقت کا نام ہیں کہ علم کو اسلامی فکر، اقدار اور انسانی فلاح کے تناظر میں تشکیل دیا جائے۔

سربراہ حوزہ علمیہ ایران نے زور دیا کہ اسلامی انسانی علوم صرف نظری مباحث تک محدود نہیں، بلکہ ان کا تعلق معاشرت، سیاست، معیشت، تعلیم، فنِ تعمیر، ادب اور ثقافت سے بھی ہے۔ انہوں نے شیخ بہائی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی علوم اور جدید تقاضوں کا امتزاج ہی ایک زندہ اور مؤثر تمدن کی بنیاد بنتا ہے۔

آیت اللہ اعرافی نے حوزہ اور یونیورسٹی کے باہمی تعاون کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ نئے تمدنی نمونوں کی تشکیل اسی اشتراک سے ممکن ہے۔ انہوں نے فقہِ تربیت، فلسفۂ تعلیم، فلسفۂ سیاست اور معاصر علوم سے ہم آہنگ فقہی و فکری نظام کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ اسلامی انسانی علوم کا فروغ، بیانیۂ گامِ دومِ انقلاب کو عملی جامہ پہنانے کی کلید ہے اور اس ذمہ داری کو حوزہ و یونیورسٹی کو مل کر انجام دینا ہوگا، تاکہ اسلامی تمدن کے نئے افق روشن کیے جا سکیں۔

واضح رہے کہ "بیانیہ گامِ دومِ انقلاب" دراصل رہبرِ انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا وہ جامع اور رہنما دستاویز ہے جو اسلامی انقلاب کی چالیس سالہ کارکردگی کے جائزے کے بعد جاری کیا گیا۔ اس بیانیے میں ماضی کی کامیابیوں اور تجربات کو بنیاد بنا کر مستقبل کا لائحۂ عمل پیش کیا گیا ہے، جس میں علم و تحقیق، اخلاق و معنویت، معیشت، انصاف، خود مختاری، تہذیب و ثقافت اور سماجی ذمہ داری جیسے بنیادی موضوعات شامل ہیں۔ اس کا مرکزی مخاطب نوجوان نسل ہے اور مقصد یہ ہے کہ اسلامی اقدار کی روشنی میں ایک مضبوط، خودمختار اور باوقار معاشرہ تشکیل دیا جائے جو مستقبل کے چیلنجز کا مؤثر انداز میں مقابلہ کر سکے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha