صوبہ کردستان سے حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حجت الاسلام سجاد کاوه نے مدرسه سفیران هدایت سنندج میں ’’تحریک ِ عاشورا کی وضاحت‘‘ کے عنوان پر منعقدہ ایک اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا: آج واقعۂ کربلا کے 1400 سال گزر جانے کے باوجود بھی ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسین (ع) کا نام نہ صرف زندہ ہے بلکہ ہر روز شعور اور جوشِ حسینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مدرسه سفیران هدایت خاتم الانبیاء سنندج کے ڈائریکٹر نے کہا: امام حسین علیہ السلام کی تحریک کی پہلی اور سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس فرزندِرسول خدا (ص)نے پورے علم کے ساتھ اپنے اہل بیت(علیھم السلام) اور ساتھیوں کو صحرائے کربلا میں لے گئے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین(ع) اپنے مشنِ الہی سے کہ جو امر بالمعروف و نہی از منکرتھا اور اپنے کام کے سرانجام سے بخوبی واقف تھے ۔
حجت الاسلام کاوه نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امام حسین (ع) کی تحریک اور قیام کے دوران ، دینِ اسلام کو ظاہری اورباطنی دونوں طرح سے مکمل طور پرمنحرف کر دیا گیا تھا ، کہا: یہ انحراف اس حد تک تھا کہ بہت سارے مسلمانوں کا یہ کہنا تھا کہ نعوذ باللہ امام حسین (ع) دین سے خارج ہو گٗئے ہیں۔
مدرسه سفیران هدایت خاتم الانبیاء سنندج کے ڈائریکٹر نے اس سلسلہ میں مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا:ان شقی افراد کا یہ انحراف اس حد تک تھا کہ امام حسین(ع) کے بالمقابل اموی فوج میں سے اکثر سپاہیوں نے غسلِ شہادت کر رکھا تھا کہ جس سے اس دور میں بنی امیہ کے پروپیگنڈے کے نظام کی کامیابی واضح ہوتی ہے۔ تاہم اس کے باوجود امام حسین علیہ السلام نے خدا کی اطاعت میں ایک لمحہ کے لئے بھی دریغ نہیں کیا اور اہل بیت(علیھم السلام) اور بچوں کو دین خالصِ اسلام پر قربان کر دیا۔