حوزہ نیوز ایجنسی کی dutchnews کے مطابق، ہالینڈ میں برقعے پر عائد پابندی کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے والے ایک ادارے کی تحقیقات کے مطابق ، اس قانون کی وجہ سے ملک میں مسلم خواتین کو جسمانی اور زبانی طور پر ہراساں کیے جانے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
ہالینڈ میں ادارہ برائے اسلامو فوبیا نے ہالینڈ کی پارلیمنٹ سے پبلک ٹرانسپورٹ ، سرکاری عمارتوں بشمول اسپتالوں اور اسکولوں میں سے برقعے پر پابندی عائد کرنے والے قانون پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس قانون کو اسلامو فوبیا کے پھیلاؤ کی ایک وجہ قرار دیا ہے۔
ادارہ ہذا نے اپنی سالانہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ مسلمان خواتین کو اسلامو فوبیا کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، خواہ وہ برقعے میں ہوں یا برقعے کے بغیر۔ قانون کی منظوری کے بعد سے مسلمان خواتین پر زیادہ تر ایسے مقامات پر حملہ کیا جاتا ہے جہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی ، جیسے دکانیں اور کھیل کے میدان ، یہاں تک کہ پولیس بھی اس قانون سے بخوبی واقف نہیں ہے اور مسلمان خواتین پولیس پر بھی بھروسہ نہیں کر سکتیں۔
اس ادارے کے مطابق ، یہ قانون مسلم خواتین کے خلاف شوسل میڈیا کے صارفین کو اکساتا ہے اور مختلف افراد کے ذریعے مسلم خواتین پر دباؤ ڈالنے کے ساتھ اس صورتحال سے ناجائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے ۔
ادارے کے ترجمان نے بتایا کہ بہت سارے بچوں نے بھی اپنی ماؤں کے ساتھ برا سلوک اور بد تمیزی کے واقعات رونما ہوتے دیکھا ہے۔
انہوں نے حکومت سے اس قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ اس مسئلے کو غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ قانون ، مسائل کو حل کرنے کے بجائے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے اور یہ صرف ایک سیاسی اشارہ ہو سکتا ہے اور یہ قانون اسکارف پہننے والی مسلم خواتین کے لئے دور رس نتائج کا حامل ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ہالینڈ میں تقریباً 200 سے 400 کے درمیان مسلمان خواتین اپنے چہروں کو ڈھانپنے کے لئے برقعے یا نقاب پہنتی ہیں۔ گذشتہ سال یکم اگست سے ہی ملک میں برقعے پر پابندی عائد کرنے کیلئے ایک قانون پاس کیا گیا تھا اور خلاف ورزی کرنے والوں پر ڈیڑھ سو یورو جرمانہ معین کیا گیا تھا ، جب کہ چادر سمیت حجاب اور دیگر اسلامی پردے پر ابھی تک پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ حکومتی ارکان نے 2022 ء تک اس قانون کا جائزہ لینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔