۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
ایران میں قانونِ حجاب کے خلاف احتجاج

حوزہ/ اسلامی جمہوریہ ایران میں خواتین کو برقعے اور مکمل چادر کے بغیر باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے یہ واقعیت کے خلاف ہے۔

تحریر: ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی

حوزہ نیوز ایجنسی | یہ بات تو واضح ہے کہ دین اسلام میں حجاب کے واجب مقدار کی حد بندی کے بارے میں اہل علم کے مابین کسی حد تک اختلاف کے باوجود اصل حجاب کی ضرورت اور بے حجابی کی ممانعت پر تقریبا تمام مکاتب فکر کے علما کا اتفاق ہے۔ لہذا کہا جا سکتا ہے کہ سماج میں اصل حجاب کی ترویج کے قابل ستائش ہونے میں مسلمانوں کے درمیان کوئی دو رائے نہیں ہے۔ جہاں تک حجاب کی ترویج میں کسی ریاست کی مداخلت کے صحیح ہونے نہ ہونے کا سوال ہے تو اس بارے میں رائے قائم کرنے کا دارومدار اس ملک کے عمومی اکثریتی آراء پر ہونا چاہیے نہ بعض لوگوں کی خواہش پر۔ تو اس تناظر میں ایران میں حجاب کے قانون کو دیکھا جائے تو یہ نہ غیر اسلامی ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کے خلاف، کیونکہ یہ قانون پارلیمنٹ میں بحث کے بعد عوامی منتخب نمایندوں نے (1983میں) اکثریتی آراء سے پاس کیا ہے۔ لہذا اس قانون کے پیچھے بھرپور عوامی تائید موجود ہے چاہے وہ شیعہ ہوں یا اہل سنت۔

علاوہ ازیں اگر کوئی حکومت اپنی قوم کی غالب تہذیب و ثقافت کے تحفظ سے متعلق کوئی قانون بناتی ہے تو اس کے اس حق کا کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔ لہذا حکومت اگر عوامی مقامات پر حجاب کی رعایت اور شراب کی ممانعت جیسے قوانین بناتی ہے تو یہ کیسے غلط ہو گا؟!
جہاں تک حجاب کے اس قانون میں سختی کا تاثر ہے یہ وہاں کے زمینی حقائق سے ناواقفیت کی بنا پر ہے۔ جنہوں نے ایرانی معاشرے کو قریب سے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ وہاں حجاب کے معاملے میں اتنی سختی نہیں ہے بلکہ فیشن اور بناو سنگھار (زینت و آرائش) میں ایرانی خواتین پاکستان کی پوش نشین خواتین سے بھی چار قدم آگے ہیں! لہذا یہ کہنا کہ مخصوص مکمل چادر کا پہننا لازمی ہو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جو خواتین مکمل چادر پہنتی ہیں وہ اس حکومتی قانون کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلامی حکم پر عمل کی خاطر اپنی مرضی سے پہنتی ہیں۔ جبکہ حکومتی قانون کی وجہ سے خواتین جو حجاب پہنتی ہیں وہ انتہائی مختصر اسکارف ہے بلکہ کہنا چاہیے رومال ہے! یہاں تک کہ جو غیر ملکی حکومتی خواتین اہلکار سرکاری دورے پر ایران آتی ہیں وہ بھی اس قانون کے احترام میں ایک مختصر اسکارف سر پر لیتی ہیں۔لہذا یہ خیال کرنا کہ وہاں خواتین کو برقعے اور مکمل چادر کے بغیر باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے یہ واقعیت کے خلاف ہے۔

جہاں تک مھسا امینی کی موت کے سبب کو بلا ثبوت تشدد قرار دیا جا رہا ہے اس بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس حوالے سے مغرب نواز اور دین بیزار عناصر اپنے پروپیگنڈا مہم میں کامیاب ٹھہرے ہیں! مھسا کی موت کے بعد چند روز تک جاری رہنے والے حالیہ پرتشدد مظاہروں کو انقلاب اسلامی اور قانون حجاب کے خلاف "ایرانی عوام" کا احتجاج قرار دینا بھی مبالغہ اور حقیقت کے خلاف ہے۔ کیونکہ ان چند روزہ مظاہروں کے دوران جس طرح اسلام، حجاب اسلامی، قرآن کریم اور دینی مقدسات کو ان لوگوں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا ہے اس سے صاف واضح ہے کہ یہ ایرانی عوام نہیں بلکہ دین بیزار عناصر کی جانب سے کسی مخصوص بیرونی ایجنڈے کو مکمل کرنے کی ناکام کوشش تھی جو ملک گیر سطح پر لاکھوں ایرانی عوام کی جانب سے انقلاب اسلامی کی حمایت میں اس ہفتے بروز جمعہ اور اتوار کو نکالی جانے والی ریلیوں کے بعد اب دم توڑ چکی ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .