۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
سلمان عابدی

حوزہ/اردو ادب کی خوش قسمتی کہیئے کہ اس وصیت نامے کے منظوم ترجمے کے لیے اور صرف اسی خط کے لیے ہی نہیں بلکہ مکمل نہج البلاغہ کے منظوم ترجمے کے لیے ادیب عصر، محقق دوراں، خطیب بے بدل، دبیر دہر، انیس عصر، فرزدق دوراں شاعر شیریں بیاں، حجۃ الاسلام والمسلمین عالیجناب مولانا سلمان عابدی زید عزہ کی ذات کو صنّاع ازل نے چن لیا ورنہ یہ شعبہ ھل من مبارز کی صدائے بازگشت کو ہی سنتا رہتا۔

حوزہ نیوز ایجنسیl
منظوم ترجمہ:حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سلمان عابدی زید عزہ

امام علیؑ کا امام حسنؑ کے نام خط: یہ اخلاقی اور توحیدی مطالب پر مشتمل خط امیرالمؤمنین(ع) کی طرف سے ہے جسے آپ نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں اپنے بیٹے امام حسن مجتبی(ع) کے نام لکھا ہے۔ اس خط میں مذکور اہم نکات: تقوا، دعا، تاریخ کا مطالعہ اور اس سے عبرت لینا اور اپنے زمانے کی پہچان کرنا ہے اور نیز اس میں حکمت آمیز مختصر جملے بھی ہیں۔ نہج البلاغہ کے ترجموں اور شروحات کے علاوہ اس خط کا مستقل ترجمہ بھی بہت ہوا ہے اور ترتیب کے حوالے سے اس خط کا نمبر نہج البلاغہ کے مختلف نسخوں میں مختلف ہے۔

جب امیر المومنینؑ جنگ صفین سے واپس آرہے تھے تو اس وقت یہ خط لکھا گیا ہے۔ لیکن جس جگہ اس خط کو لکھا گیا ہے اس کا نام نہج البلاغہ میں «حاضرین» ذکر ہوا ہے جس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے کہ کسی جگہ کا نام ہے یا جو لوگ حاضر تھے وہ مراد ہیں۔

سید رضی نے اس خط کا مخاطب امام حسن(ع) کو قرار دیا ہے لیکن خط کی بعض عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسنؑ کی عصمت کے ساتھ سازگار نہیں ہے جیسے: «عبد الدنیا» یا «تاجر الغرور»؛ بلکہ امیر المومنینؑ کی عصمت کے شایان شان بھی نہیں ہیں جیسے:«أَوْ أَنْ أُنْقَصَ فِی رَأْیی کمَا نُقِصْتُ فِی جِسْمِی»؛ ابن ابی الحدید کا کہنا ہے کہ یہ جملے شیعوں کے عصمت عقیدۂ کے منافی ہے اور اس عقیدے کو باطل قرار دیتا ہے۔

ابن میثم بحرانی جیسے بعض نہج البلاغہ کے شارحین کا کہنا ہے کہ سید رضی کے نقل کے برخلاف جعفر بن بابویہ سے نقل کے مطابق خط کا مخاطب محمد بن حنفیہ ہیں، بعض اور کا کہنا ہے کہ یہ وصیت نامہ ایک عام دستور العمل اور نصیحت ہے جس میں امام علیؑ نے ایک باپ کی حیثیت سے امام حسن کو ایک بیٹے کی جگہ رکھ کر نصیحت کی ہے اسی لئے وصیت میں ارشاد ہوتا ہے۔ «مِنَ الْوَالِدِ الْفَانِ» «إِلَی الْمَوْلُودِ الْمُؤَمِّلِ مَا لایدْرِک» یہ نہیں کہا ہے «مِنْ علی بن ابی طالب» «الی الحسن بن علی». یا دوسرے لفظوں میں وصیت کے اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ مقصود باپ اور بیٹے کا رابطہ ہے؛ امام اور اس کے جانشین کا نہیں۔

اس خط کا ترجمہ یوں تو نہج البلاغہ کے ہر مترجم نے کیا ہے لیکن بعض مستقل طور پر بھی اس خط کے ترجمے مختلف زبانوں میں ملتے ہیں۔اور سب سے زیادہ ترجمہ فارسی زبان میں ہوا ہے۔ترجمہ کے علاوہ بہت سارے علماء نے اس خط کی شرح بھی کی ہے جو کہ عربی اور فارسی زبان میں بہت ہیں۔

یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ اچھا محقق اچھا شاعر نہیں ہو سکتا کیونکہ تخلیق اور تحقیق ادب کے دو الگ الگ پیشے ہیں اور ان کے لیے مزاج بھی مختلف چاہئیں تخلیق اور تحقیق کا یہ اختلاف اپنی جگہ بڑی حد تک درست بھی ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ صفات  ادیب عصر، محقق دوراں، خطیب بے بدل، دبیر دہر، انیس عصر، فرزدق دوراں شاعر شیریں بیاں، حجۃ الاسلام والمسلمین عالیجناب مولانا سلمان عابدی زید عزہ کی ذات والا صفات میں باہم اپنے تمام تر کمالات کے ساتھ موجود و مشہود ہیں، اردو ادب کی خوش قسمتی کہیئے کہ اس وصیت نامے کے منظوم ترجمے کے لیے اور صرف اسی خط کے لیے ہی نہیں بلکہ مکمل نہج البلاغہ کے منظوم ترجمے کے لیے آپ کی ذات کو صنّاع ازل نے چن لیا ورنہ یہ شعبہ ھل من مبارز کی صدائے بازگشت کو ہی سنتا رہتا۔

قسط ششم( آخری)

آدمی اپنے راز کو بیٹا
خود ہی بہتر رکھے گا پوشیدہ

جو ذیادہ زبان کھولتا ہے
بے تکی باتیں پھر وہ بولتا ہے

بیٹا دنیا میں بدترین طعام
یاد رکھو فقط ہے مال حرام

وہ برا ظلم ہے اے جان پدر
جو کیا جائے ناتوانوں  پر

کبھی بن جاتی ہے دوا آفت
کبھی آفت ہی بنتی ہے صحت

کبھی دشمن بھلائی کرتا ہے
کبھی اپنا برائی کرتا ہے

نہ کرو خواہشات پر تکیہ
کہ ہیں یہ احمقوں کا سرمایہ

تجربوں کی بقا فراست ہے
اور حسیں تجربہ نصیحت ہے

توشہ کھودینا ہی تباہی ہے
بگڑے عقبی تو روسیاہی ہے

اُس مددگار میں بھلائی نہیں
جس میں طینت کی پارسائی نہیں

غصے کے گھونٹ پی لو اے بیٹا
میں نے انجام دیکھا ہے اس کا

اس سے میٹھا تو کوئی گھونٹ نہیں
ایسی لذت نہ دیکھی میں نے کہیں

اپنے دشمن پہ لطف کر کے سدا
کامیابی کا بیٹا چکھو  مزا

دوست سے اپنے کٹنا چاہو اگر
تو رکھو اتنی جا مرے دلبر

کہ بدلنا وہ چاہے اپنی روش
تو رہے دل میں تھوڑی گنجائش

بیٹا ہر عیب آشکار نہیں
فرصت کار بار بار نہیں

آنکھ والا بھی کھوتا ہے رستہ
رستہ پا لیتا ہے کبھی اندھا

جاہلوں سے اے بیٹا مڑ جانا
عاقلوں سے ہے گویا جڑ جانا

دیکھ لو ہم سفر کو قبل سفر
گھر سے پہلے پڑوس کی لو خبر

عورتوں سے کبھی نہ مشورہ لو
ان کی کمزور رائے ہے دیکھو

ان کو پردے میں رکھ کے جان پدر
تاک اور جھانک سے بچا و پسر

کیونکہ پردے کی سختی اے مری جاں
عزت و آبرو کی ہے نگراں

ان کا گھر سے نکلنا لال مرے
اتنا خطرہ نہیں ہے ان کے لئے

جتنا اک غیر معتبر کو پسر
گھر کے اندر بلانے میں ہے خطر

اور اگر بن پڑے تو ایسا کرو
ان سے اس طرح کا رویہ رکھو

کہ تمہارے سوا یہ ہے بہتر
وہ کسی سے نہ آشنا ہوں اگر

ہاں خبردار اے مرے دلبر
ان کے ذاتی امور سے ہٹ کر

دوسرا کوئی اختیار نہ دو
ہاتھ میں ان کے اقتدار نہ دو

پھول ہے بیٹا سخت جان نہیں
کارفرما و حکمران نہیں

فکر نان و غم لباس کرو
اس کی حد تک ہی اس کا پاس کرو

بے محل تم نہ بد گمانی کرو
اس کے بارے میں شک سے دور رہو

بیٹا اپنے قبیلے کا اکرام
تم پہ لازم ہے دیکھو صبح و شام

یہی دمساز ہیں تمہارے لئے
پر پرواز ہیں تمہارے لئے

یہی بنیاد ہیں تمہاری پسر
جن سے لیتے ہو تم مدد اکثر

یہی بیٹا تمہارے ہیں بازو
ان سے ہی ڈرتے ہیں تمہارے عدو

جان من کرتا ہوں سپرد رب
دین و دنیا کو میں تمہارے اب

یہ دعا کرتا ہوں میں اب رب سے
چاہتا ہوں یہی تمہارے لئے

حال ہو یا تمہارا مستقبل
دہر یا آخرت کی  ہو منزل

سب سے اچھا تمہارا ہو انجام
اور آخر میں باپ کا لو سلام
والسلام
ختم شد

تبصرہ ارسال

You are replying to: .