۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
مولانا منظور علی نقوی آمروہوی

حوزہ/ شہدای کربلا کا کردار ہمارے لیے نمونہ عمل ہے، انکے کردار سے ہمیں درس حاصل کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے لیے ضروری ہے کہ اس انقلاب اور طوفان کو دل میں پیدا کریں جو شہدای کربلا کے دل میں تھا۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مولانا منظور علی نقوی امروہوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ شہدای کربلا کو یاد کرنا فقط ثواب ہی نہیں ہے بلکہ کافی درس ہیں جو ان کے کردار سے ہمیں حاصل ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں انسانیت کا درجہ نسیب ہوتا ہے۔

انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ امام حسین علیہ السلام کا جملہ جو آپ نے کربلا میں اپنے اصحاب کے درمیان فرمایا کہ جیسے اصحاب مجھے ملے ہیں ایسے نہ میرے بابا کو اور نہ میرے نانا کو ملے امام ہمیں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اگر تم چاہتے ہو اپنے آپ کو حسینی و کربلایی بنانا تو میرے اصحاب پر نگاہ کرو دیکھوں کس طرح انہوں نے میری نصرت کی، کس طرح انہوں نے میری آواز پر لبیک کہا۔

مولانا نے کہا کہ  شہدای کربلا کا کردار ہمارے لیے نمونہ عمل ہے، انکے کردار سے ہمیں درس حاصل کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے لیے ضروری ہے کہ اس انقلاب اور طوفان کو دل میں پیدا کریں جو شہدای کربلا کے دل میں تھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ٣ ایسی صفات تھی شہدای کربلا کے پاس جس کی وجہ سے اس مقام کو کوئی آسانی سے حاصل نہیں کر سکتا۔ جس میں سب سے پہلا درس جو انکے ذریعے حاصل ہو رہا ہے وہ تسلیم کا درس ہے امام‌ حسین علیہ السلام کے روبرو ایسے تسلیم تھے کہ امام کو کہنا پڑا ( انه مستمنون)  دوسرا درس جو حاصل ہوتا ہے وہ ایثار کا درس ہے اور تیسرا درس صبر کا درس ہے. حقیقتا اگر یہ تین درس ( تسلیم،  ایثار و صبر)  ان تینوں کو اگر ہم اپنی زندگی کے ساتھ پیوسط کر لیں تو یقیناً ہماری روح پاکیزہ ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اربعین حسینی میں بھی ہمیں یہ سب دیکھتا ہے تسلیم و ایثار کا وہ ظاہری نمونہ ہمیں نظر آتا ہے جو پوری دنیا میں  کہیں نظر نہیں اسکتا۔  تسلیم ایسے کہ نجف اشرف سے کربلا کا پیدل سفر جس سفر میں نہ عمر کی قید نہ قبیلے کی قید نہ ملک کی قید ہر کوئی فقط زبان پر لبیک یا حسین کہتا ہوا نجف سے کربلا کے سفر پر گامزن ہوتا ہے، اب نہ راستہ کی تکلیف اسے کوئی اذیت پہنچاتی ہے اور نہ ہی اور نہ کسی چیز کا حاجت مند ہوتا ہے، چاہے پیر میں آبلہ پڑ جائے گرمی کی شدت یا سردی کی شدت ہو کوئی بھی مانع نہیں ہوتی، اس راستے میں کوئی رشتہ کوئی دوستی کوئی تعلق نہیں دیکھا جاتا اگر کچھ ہوتا ہے تو فقط و فقط ایک رشتہ ہوتا ہے جس کا نام حسینیت و  ہے۔  دوسرا ایثار کا درس ہے جس کا اندازہ دنیا کی کوئی ریاست نہیں لگا سکتی اور نہ ہی ایسا ایثار کا نمونہ پیش کر سکتی ہے جو ہمیں اربعین حسینی پر نظر آتا ہے کہ جس کے پاس جو بھی ہے وہ اپنے ہاتھوں میں لیا کھڑا ہے اور فقط زبان پر یا حسین یا حسین کی صدا ہے، اپنا سب کچھ راہ حسین علیہ السلام میں تقسیم کر دیتے ہیں جیسے انکا خود کا کچھ نہیں ہے جو ہے وہ فقط حسین علیہ السلام کا ہے۔

آخر میں کہا کہ یقیناً ایثار و تسلیم یہ وہ درس ہیں جو دنیا کی بڑی سے بڑی دانشگاه‌ بھی نہیں دے سکتی جو اربعین حسین ابن علی چند روز میں دے دیتی ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .