حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لاہور/ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے جامع علی مسجد جامعتہ المنتظر ماڈل ٹاون میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے کہا کہ عقل اللہ تعالیٰ کی ناقابلِ شمار نعمتوں میں سے عظیم نعمت ہے جو انسان کو اچھائی کا راستہ دکھاتی اور بُرائی سے روکتی ہے لیکن خواہشاتِ نفس سے مغلوب آدمی عقل کی راہنمائی کی طرف توجہ نہیں دیتا۔مہربان خالق نے الہامی تعلیمات اور پیغمبروں کے ذریعہ عقل کی مدد کی ۔ عقل کے علاوہ انسان انبیائ، الہامی کتب،انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات سے بھی حق کا راستہ پہچان سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلاشبہ تلاوت کلام اللہ کی بڑی فضیلت ہے۔ قرآن مجیدکتاب ہدایت اور منشور زندگی ہے۔ اس لئے قرآن مجید اور دعاﺅں کو سمجھ کر پڑھا جاتا تو مسلمانوں کی عملی زندگی ایسے نہ ہوتی،جو آج ہے۔قرآن کو سمجھ کر پڑھا جائے تو شعور زندگی پیدا ہوگا۔ بچوں کو فقط ناظرہ قرآن مجید پڑھانے کے نتیجے میں اجتماعی اسلامی شعور پیدا نہیں ہو سکا۔انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر ظلم و زیادتی کی ایک اہم وجہ قرآن کو نہ سمجھنا اوراس پر عمل نہ کرنا ہے۔قرآن ہر قسم کے ظلم وزیادتی کی صریح نفی کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلمان، فلسطین،یمن میں ہونے والے مظالم کا دفاع نہ کرنے کی ایک وجہ قرآنی تعلیمات کا شعو ر نہ ہونا ہے۔بہت سے ممالک آئے دن یمن پر وحشیانہ انداز میں کرتے ہیں،بے گناہوں کا خون بہاتے ہیں لیکن اسلامی دنیا ، یمن کا دفاع کرتی ہے ،اور نہ ہی ظلم کرنے والوں کی مذمت کرتی ہے، حتیٰ کہ جب مظلوم یمنی اپنے دفاع کے لئے کچھ کریں تو سب شور مچاتے ہیں۔
حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کے لئے اولوا لعزم پیغمبروں کو بھیجا ۔سب سے آخر میں خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایاجنہوں نے صداقت و امانت داری کا مجسمہ بن کر اپنے کردار کو منوایا، اس کے بعد نبوت کا اعلان فرمایا۔اس قدر نعمتوں کا تقاضا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو بکثرت یاد کرے ۔ہمارے ہاں اللہ کا ذکر بہت کم کیا جاتا ہے۔اذان کا آغاز بھی آیات کی بجائے اللہ کے نام سے ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ گذشتہ دو، اڑھائی سو سالوں میں انسان نے اگرچہ کافی مادی ترقی کی ہے۔سیاروں کو مسخر کیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی کو معراج کے ذریعہ جس عظمت و بلندی سے نوازا،انسانی عقل اس کی گردِراہ تک بھی نہیں پہنچ سکتی۔
سورہ مبارکہ اسراکی پہلی آیت میں معراج کا ذکر ہے جب اللہ تعالیٰ آواز سے بھی زیادہ رفتار کے ساتھ اپنے حبیب کو بیت المعمور تک لے گیا جسے آیت مبارکہ میں مسجد اقصیٰ کہا گیا ہے۔بعض مفسرین نے اس سے بیت المقدس مراد لیا ہے حالانکہ اُس وقت بیت المقدس میں کوئی مسجد نہ تھی۔ہمارے عقیدہ کے مطابق کعبہ کے نیچے تحت الثریٰ اور بلندیوں میں آخری حد تک کعبہ کا اطلاق ہوتا ہے۔بلندیوں میں اس مقام کا نام ” بیت المعمور“ ہے جہاں حضور کو لے جایا گیااور اسے مسجد اقصیٰ کہا گیا۔بعض لوگ معراج کو خواب قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ جسمانی معراج تھا جو اللہ نے اپنی عظیم نشانیاں دکھانے کے لئے حضوراکرم کو کرایا۔