۱۵ مهر ۱۴۰۳ |۲ ربیع‌الثانی ۱۴۴۶ | Oct 6, 2024
سعودی عرب کا کٹرپن چہرہ

حوزہ/ انسانی حقوق کی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال سعودی عرب میں سزائے موت کے معاملے میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور عالمی برادری کو حکومت سعودی سے جواب طلب کرنا چاہئے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،انسانی حقوق کی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال سعودی عرب میں سزائے موت کے معاملے میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور عالمی برادری کو حکومت سعودی سے جواب طلب کرنا چاہئے۔

فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انسانی حقوق کی سعودی- یورپی تنظیم (esohr) نے اپنی رپورٹ میں سعودی عرب میں سزائے موت کے نفاذ میں ہونے والی تیزی پر روشنی ڈالی اور لکھا کہ سعودی عرب میں گزشتہ برسوں کی بہ نسبت سزائے موت میں 148 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2021 میں 67 سزائے موت دی گئی جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد صرف 27 تھی۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس بات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت انسانی خون کی حرمت کی قائل ہی نہیں ہے۔

انسانی حقوق کی اس تنظیم کا کہنا ہے کہ 2020 میں سزائے موت کی کمی اس لئے نہیں تھی کہ سعودی حکمراں انسانی حقوق کی رعایت کی ضرورت پر توجہ دے رہے تھے بلکہ اس لئے تھی کہ محمد بن سلمان عالمی برداری میں سعودی عرب کی شبیہ کو صحیح کرنے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ سلمان بن عبد العزیز نے جب سے سعودی عرب کا اقتدار سنبھالا ہے تب سے سزائے موت کے نفاذ میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا اور ریاض کو تنقیدوں کو کم کرنے کی ضرورت تھی۔

اس بارے میں کہا گیا ہے کہ 2019 میں 186 افراد کو سزائے موت دی گئی اور اس کی وجہ سے انسانی حقوق کی بہت سی تنظیموں کی چیخیں نکل پڑیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .