تحریر: مولانا سید مشاہد عالم رضوی
حوزہ نیوز ایجنسی | مؤمنین خوش و شاداں ہیں۔ اھل ایمان تیاری میں مصروف ہیں، کیونکہ خداوند کریم کی خاص عنایتوں کا مہینہ قریب ہے۔ توبہ واستغفار کریں گے تلاوت قرآن کریں گے روزہ رکھیں گے شبہای قدر میں شب بیداری اور خلوت و جلوت میں اپنے رحیم وکریم مالک کی بارگاہ میں آہ و زاری وجبیں سائی کریں گے اور روئیں گے۔
سال بھر اسی کا انتظار تھا لیجیۓ دعا مستجاب ہوئی اور گل مراد حاصل ہوا۔
اھدنا الصراط المستقیم ۔۔۔ مالک مجھے راہ راست دیکھا تا رہ ۔
کی کلی بصورت ماہ رمضان کھلنے کو ہے ۔
لہذا ماہ شعبان ختم ہونے سے قبل سنبھلنے کے ایام ہیں رسول پاک تو ماہ شعبان ہی سے رمضان کریم کے لئے کمر کس لیتے اور خاندان عصمت وطہارت کے گل و لالہ و یاسمن مہمانی خدا کے لئے سراپا مھیا ہو جاتے تھے اور کیوں نہ ہو؟ اس سے بڑھ کر بندگی کی پریکٹس اور کس مہینے میں ممکن ہو سکتی ہے ؟ خاصان خدا و اولیاء الھی نے اس مہینہ میں معراج بندگی پائی ہے عارفاں الھی کو اسی مہینے میں نزھت و پاکیزگی ملی ہے اور انہیں اسی جیسے مہینے کی ریاضت نے شیطان رجیم کے مکر و شر سے بچتے رہنے کا فن سکھایا ہے۔
ماہ ضیافت الھی ماہ عبادت و بندگی ماہ صحت وتندرستی جی ہاں جسمانی وروحانی صحت وتندرستی کی مکمل کارگاہ تصفیہ روح و جاں کا مہینہ ۔
رمضاں المبارک تذکیہ نفس کا بہترین زمانہ قریب سے قریب تر ہے شاید اب کہ بار ہم جیسے کمزور و ناتواں لوگ بھی اس کے صادق و سچے بندوں میں شمار کرلئے جائیں کہ امید پر دنیا قائم ہے
تو آئیے اسی امید پر ھلال رمضان کا انتظار کر تے ہیں۔اگرچہ دنیا میں بکثرت ایسے افراد بھی ہیں جن کی آزاد مزاجی اس قید کی متحمل نہیں۔
طبع آزاد پر قید رمضاں بھاری ہے
تم ہی کہدو یہی آئین وفاداری ہے
ڈاکٹر محمد اقبال
اب اگر کسی طبیعت پر روزہ بھاری ہو تو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کی دوا بھی روزہ داری ہے جسے کڑوی دوا سمجھ کر ضرور آزمانا چاہئے جس کا فائدہ آخر میں نفس کی شفایابی کی شکل میں برآمد ہوگا۔
اے ایمان والو تم پر روزے اسی طرح فرض کردئیے گئے ہیں جس طرح پچھلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے کہ اس طرح ممکن ہے تم پارسا و متقی بن جاو ۔
سورہ بقرہ آیت ١٨٣