۲۴ آذر ۱۴۰۳ |۱۲ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 14, 2024
News ID: 397212
10 مارچ 2024 - 23:01
حفظ قرآن

حوزہ/ امت مسلمہ کا مکمل اعتقاد، یقین محکم اور ایمان کامل ہے کہ قرآن مجید کو اللہ تبارک تعالٰی نے جبرئیل امین کے ذریعہ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفٰی ﷺ پر 23 برس کے عرصہ میں اتارا۔ نزول قرآن کریم کا یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا، جب پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کی عمر مبارک 40 کی تھی اور آپؐ کی وفات سن 11 ہجری بمطابق 632 عیسوی تک جاری رہا۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی | امت مسلمہ کا مکمل اعتقاد، یقین محکم اور ایمان کامل ہے کہ قرآن مجید کو اللہ تبارک تعالٰی نے جبرئیل امین کے ذریعہ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفٰی ﷺ پر 23 برس کے عرصہ میں اتارا۔ نزول قرآن کریم کا یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا، جب پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کی عمر مبارک 40 کی تھی اور آپؐ کی وفات سن 11 ہجری بمطابق 632 عیسوی تک جاری رہا۔

نزول قرآن حکیم کے سلسلے میں مفسرین قرآن اور علماء کرام میں اتفاق پایا جاتا ہے کی 23ویں رمضان المبارک میں قرآن پاک کے نزول کی تاریخ ہے۔ سرکار دو جہاں، حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کے جلیل القدر صحابی حضرت ابوذر غفاری رحہ سے مروی ہے کہ تاجدار انبیاء، حضرت محمد مصطفٰیؐ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیمؑ پر صحیفے تین رمضان، حضرت موسیٰؑ پر تورات چھ رمضان، حضرت عیسٰیؑ پر انجیل 13 رمضان، حضرت داؤدؑ پر زبور 18 رمضان، اور قرآن الحکیم رحمت العالمین، حضرت محمد مصطفٰی ﷺ پر 23 رمضان المبارک میں نازل ہوا۔ (تفسیر مظہر، جلد ا، صفحہ 14)

اس طرح قرآن مجید میں سورۃ القدر میں میں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے قرآن کو لیلتہ القدر میں نازل کیا۔ لہٰذا نزول قرآن پاک کے نزول کی تاریخ 23 رمضان المبارک پر علماء کرام اور مفسرین عظام کا اتفاق ہے۔

الامین و الصادق حضرت محمد مصطفٰی ؐ نے اپنی امت کو اردو کیلنڈر کے مطابق 1434 سال قبل اور انگریزی کیلنڈر کے اعداد و شمار کے مطابق 1392 سال قبل فرمایا کہ میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم اس سے متمسک رہو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ وہ ہے ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اہلبیت علیہم السلام۔ اس فقرے کو مربوط کرنے کے لیے ارشاد باری تعالٰی کا حوالہ دیا جا رہا ہے من یُّطٍعٍ الرَّسُول فَقَد اَطاَاللہ "جس نے رسولؐ کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔" (النساء، 80:4)۔ سورۃ الاعراف کی آیت مبارکہ نمبر 158 قارئین کرام کے لیے تحریر کی جا رہی ہے وتَّبٍعُو لَعَلَّکُم تَہتَدُون "اور تم انہی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاسکو۔" واتبعو لَعَلَّکُم تَہتَدُون "اس رسول کی اتباع میں ڈھل جاؤ تاکہ تم ہدایت یافتہ ہو جاؤ۔"

ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم جانیں کہ آخر قرآن کریم کیا ہے؟ قرآن حکیم لوگوں کی ہدایت کے لیے دلیلوں کا مجموعہ اور یقین کرنے والوں کے لیے ہدایت و رحمت و شفاء ہے۔ رب العالمین اپنی اس کتاب کی حقانیت پر مہر حقیقت ثبت کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے "یہ وہ کتاب ہے کہ اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔" (البقرہ، آیت مبارکہ نمبر 2) اس کتاب میں فصاحت و بلاغت اور نظم و نسق کے ساتھ اخلاقیات و معاملات و احکامٍ امر با لمعروف و نہی عن المنکر و معاشرت و تمدن کے ساتھ ساتھ پیشن گوئیاں و تاریخی شواہد و حقائق اور عبرت و نصیحت کے انمول موتی بکھرے ہوئے ہیں، تمام ظاہری و مخفی علوم کا مخزن ہے۔

قرآن مجید اللہ رب ذوالجلال ولاکرام کا معجزانہ کلام ہے جو خاتم النبیین، تاجدار انبیاء حضرت محمد مصطفٰی ﷺ پر حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے سے نازل ہوا، جو مصاحف میں مکتوب ہے اور تواتر کے ساتھ ہمارے پاس چلا آرہا ہے، جس کی تلاوت کرنا عبادت ہے اور جس کا آغاز سورۃ الفاتحہ سے اور اختتام سورۃ الناس پر ہوتا ہے۔ امام جعفر الصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ سب سے پہلے سورۂ اقراء باسم ربک، نازل ہوا اور سب سے آخر میں اذا جاء نصراللہ (حضرت ثقتہ الاسلام علامہ فہامہ مولانا الشیخ بن محمد یعقوب کلینی علیہ الرحمتہ، اصول کافی، جلد 5، صفحہ 305)

قرآن کریم کو کئی ناموں کے ساتھ موسوم کیا گیا ہے جیسے الکتاب، الفرقان، التنزیل، الذکر، النور، الھدیٰ، الرحمتہ، احسن الحدیث، الوحی، الروح، المبین، المجید اور الحق۔ ایک راوی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ قرآن و فرقان دو چیزے ہیں یا ایک ہی چیز ہے۔ حضرت نے فرمایا: قرآن پوری کتاب ہے اور فرقان وہ آیات محکم ہیں جن پر عمل واجب ہے۔ (شیخ کلینی علیہ الرحمتہ، اصول کافی، جلد 5، صفحہ 307)

قرآن ناطق، ایک روائی تعبیر ہے جسے پیغمبر اکرم، حضرت علیؑ اور دیگر اہل‌ بیتؑ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس تعبیر کی شہرت حضرت علیؑ کے لئے دوسروں سے زیادہ ہے۔ اس تعبیر کے سبب کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ یہ لوگ قرآن کا عملی تجسم ہیں اور قرآن کے ظاہر و باطن تک پہنچ چکے ہیں نیز اس ہدایت کو دوسروں تک بھی پہنچا سکتے ہیں۔

نزول قرآن کریم کا مقصد امت مسلمہ کی ہدایت ہے۔ کیا آج امت مسلمہ ہدایت یافتہ نظر آتی ہے؟ ہر شخص جس میں علم، عقل، ایمان، معرفت اور بصیرت سے مزین ہے وہ بے ساختہ کہے گا، بالکل نہیں۔ اس کی وجہ ڈھونڈنا ہی پڑے گی۔ قارئین کرام کو حضرت محمد مصطفٰیؐ کی ان حدیث پاک کی یاد دہانی کرائی جائے "میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جو اس سے متمسک رہے گا وہ کبھی گمراہ نہیں ہوگا۔" وہ دو گرانقدر چیزیں ہیں "قرآن صامت اور قرآن ناطق"۔ ایک بہت بڑا گروہ اُبھر کر سامنے آیا جس اس حدیث پاک کو پس پشت رکھ کر کہا کہ ہمارے لیے قرآن کافی ہے اور اس نافرمانی و گمراہی کو شدت سے اپنا ایمان قرار دے دیا اور اسی کی پیروی اور تبلیغ کر رہے ہیں۔ اس مقام پر یہ لکھنا ضروری ہے کہ قرآن صامت کا مطلب ہے خاموشی۔ اور ناطق کا معنی و مفہوم ہے بولنا، بولتا ہوا۔ یہ بھی واضح کرنا لازمی ہے کہ قرآن صامت تو پڑھا جا سکتا ہے۔ وہ نہ معنی بتا سکتا ہے اور نہ عمل و ہدایت کا طریقہ۔ قرآن صامت کا معنی اور اس پر عمل قرآن ناطق یعنی آل محمدؐ، اہلبیت علیہم السلام لیکن ہو یہ کہ وصال محمد ﷺ کے بعد امت نے آپ علیہم السلام سے رُخ موڑ لیا، نتیجہ گمراہی اور ہدایت سے نابلد ہونا کر رہ گئی۔

ہدایتیں حاصل کرنے کے لیے حدیث رسول اکرمؐ سے وابستگی، علوم قرآن سے آشنائی جیسے وحی کا ظہور، وحی کے معنی، وحی کے اقسام، نزول وحی کی کیفیت، تنزیل اور تاویل کا فرق، مکی و مدنی سورے، قرآن کو قرآن کہنے کی دلیل، سورۃ کے معنی، آیت کے معنی، سوروں کے اسماء اور ان کے دلائل، قرآن کے سوروں اور آیات کی تعدا، قرآت اور قاریانٍ قرآن، قرآت کی تعریف، حفص کی قرآت، قابل قبول قرآت کا معیار، قرآت کی خصوصیات اور حجیت، قرآن کی قرآت کے بارے میں اہل بیت علیہم السلام کا نظریہ، نص سے شیعوں کا رابطہ، نسخ، اس کی شرائط، اہمیت، حقیقت، اقسام، محکم و متشابہات، متشابہ کی اقسام، تفسیر و تاویل، حروف مقطعات، قرآنی قصے، اس کی خصوصیات، اس کے اہداف، قرآن میں تمثیل، اس ضرب المثل، اعجاز قرآن، قرآن کا چیلنج، اللہ کی صفات، جمال و جلال وغیرہ۔

مندرجہ بالا باتوں کے علاوہ حروف تہجی اور ان کے مخارج، حروف کے صفات، مد و قصر، ادغام و اظہار، نون ساکن اور تنوین، میم، تفخیم و ترقیق، وقف، وقف برسم الخط، تاءتانیث، قطع و وصل، احکام وقف، علامات وقف اور حروف مقطعات کا تلفظ وغیرہ بھی کا مطالعہ لازمی ہے۔

فضل القرآن، فضیلت حامل قرآن، تعلیم قرآن، حفظ قرآن، قرآت قرآن، ترتیل قرآن اور فضیلت قرآن کا وضاحت و فصاحت سے ذکر ہونا چاہیے کیونکہ ان چیزوں کی معلومات بہر حال مفید اور توشۂ آخرت ہے۔ لیکن ایک مضمون میں تفصیلی تحریر ناممکن ہے۔ کم از کم اس بات پر روشنی ڈالی جانی چاہیے کہ جس گھر میں قرآن پڑھا جاتا ہے، رحمت العالمین حضرت محمد مصطفٰی ﷺ نے فرمایا "اپنے گھروں کو تلاوت قرآن سے منور کرو۔ وہ گھر جس میں تلاوت زیادہ ہو تو اس کی نیکی زیادہ ہوگی اور اہل و عیال میں وسعت رزق ہوگی اور اہلٍ آسمان کے لیے اسی طرح روشنی دے گا جیسے اہلٍ دنیا کے لیے ستارے۔"

حیدر کرار، وصیٔ حضرت محمد مصطفٰیؐ امام المتقین، حضرت علیؑ ابن طالبؑ نے فرمایا کہ جس گھر میں قرآن مجید پڑھا جائے گا اور ذکر خدا کیا جائے گا تو اس میں برکت زیادہ ہوگی اور ملائکہ موجود ہوں گے اور شیاطین دور رہیں گے اور وہ گھر اہلٍ آسمان کے لیے اس طرح چمکے گا جیسے اہل زمین کے لیے ستارے اور جس گھر میں قرآن حکیم نہ پڑھا جائے گا اس کی برکت کم ہو جائے گی، ملائکہ اس گھر سے رخصت ہو جائیں گے اور شیاطین گھر میں داخل ہو جائیں گے۔ (حضرت ثقتہ الاسلام علامہ فہامہ مولانا الشیخ بن محمد یعقوب کلینی علیہ الرحمتہ، اصول کافی، جلد 5، صفحہ 280-279)

قرآن مجید کے عملی اور اصلاحی پہلو کا جس کے لیے اس کتاب حکیم کو کتاب تربیت بنا کر رب العالمین کی طرف سے تزکیہ نفس اور تعلیم حکمت کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ یہ جامع، ہمہ گیر اور آفاقی کلام ہے۔ قرآن حکیم کا ادنٰی عرفان بھی جن فکروں کو حاصل ہے انھیں اس بات کا بخوبی علم و اندازہ ہے کہ یہ علوم کا بحرٍ بیکراں اور معرفت و ہدایت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جس میں فصاحت کی طغیانی اور بلاغت کی قیامت خیز روانی ہے۔ فصاحت و بلاغت کی ٹکراتی ہوئی موجوں کی تہوں میں حقائق و معارف اسلامی اور مطالب و مراد الٰہی کے لعل و گوہر چھپے ہوئے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .