۲۹ شهریور ۱۴۰۳ |۱۵ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 19, 2024
ڈاکٹر مولانا کاظم مہدی عروج جونپوری

حوزہ/ مبارکپور میں ایام عزا کا آخری دن الوداعی مجالس و جلوس عماری و نوحہ و ماتم اور یا حسینؑ یا حسینؑ کی رقت آمیز صداؤں سے فضا گونج اٹھی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، املو،مبارکپور،اعظم گڑھ/قرآن مجید وہ مقدس کتاب ہے جو اپنےعہد تدوین سے ہی زمانے کے ہاتھوں پارہ پارہ کیا گیا۔کبھی بکری نے کھایا،کبھی تیروں سے پارہ پارہ کیا گیا،کبھی جلایا گیا۔،کبھی نیزے پر بلند کیا گیا مگر قرآن اپنی پوری آن بان اور شان کے ساتھ تمام دنیا میںمنصہ وجود و شہود پر آج بھی اپنا نور ہدایت بکھیر رہا ہے۔۔اسی قرآن مجید کا پہلا سور ہ سور حمد ہے مگر یہ سوہ قرآن کے تیس پاروں میں سے کس پارہ میں ہے کوئی نہیں بتا سکتا۔کیونکہ پہلا پارہ شروع ہوتا ہے’’ الم‘‘ سے اور آخری پارہ ختم ہو تا ہے ’’الناس ‘‘پر ۔اور قرآن مجید کے ۱۱۴ سورے ہیں ان میں پہلا سورہ سور الحمد ہے اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا،مگر تیس پاروں میں سے کس پارہ میں شمار کیا جائے کوئی کچھ بتانے سے عاجز و قاصر ہے۔یہ مسئلہ بھی حل نہیں ہوتا اگر مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالبؑ کی یہ حدیث نہ ہوتی۔

جناب ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت امیر المؤمنین علی بن علی طالب علیہ السلام ایک شب بسم اللہ کی تفسیر بیان کر رہے تھے ۔ تمام اصحاب ہمہ تن گوش باب مدینتہ العلم کے فضل و کمال سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ رات بیت گئی مگر تفسیر نا تمام رہی ۔ آخر آپ نے فرمایا کہ اگر ہم اس کی تفسیر کلی طور پر بیان کریں تو اسکا بوجھ ستر (٧٠) اونٹ نہیں اٹھاسکتے۔ اسی واقعے کو شیخ سلیمان قندوزی نقشبندی نے اپنی (ینابیع المؤدہ ) شہرہ آفاق کتاب میں امیر المٔومنین حضرت علیؑ فرماتے ہیں کہ جو کچھ کلام اللہ ہے وہ سورۂ الحمد (الفاتحہ) میں ہے۔اور جو کچھ سورۂ الحمد (فاتحہ ) میں ہے وہ بسم اللہ میں ہے اور جو کچھ بسم اللہ میں ہے وہ بائے بسم اللہ میں ہے اور جو کچھ بائے بسم اللہ میں ہے وہ ''ب'' کے نقطے میں ہے اور وہ '' با'' کے نیچے کا وہ نقطہ میں( علی ) ہوں''۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ پورا قرآن معنوی اعتبار سے ایک طرف ،اور سورہ حمد ایک طرف۔اس سورہ کو سبع مثانی بھی کہا جاتا ہے جیسا کہ سورہ الحجرآیت نمبر ۸۷ میں ہے کہ:وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْم۔ترجمہ: اور بےشک ہم نے تم کو سات آیتیں دیں جو دہرائی جاتی ہیں اور عظمت والا قرآن ۔اور یہی وہ سورہ ہے جو دومرتبہ نازل کیا گیا ہے مکہ میں بھی اور مدینہ میں بھی۔

ان خیالات کا اظہار بین الاقوامی شہرت یافتہ معروف خطیب اہل بیتؑ ڈاکٹر مولانا سید کاظم مہدی عروج جونپوری مقیم لکھنؤ نےبتاریخ ۶و۷؍ربیع الاول ۱۴۴۶ھ بوقت ۹؍بجے شب بمقام بارگاہ زینب سلام اللہ علیہا محلہ پورہ سوفی(برئی ٹولہ) مبارکپور میں پسران اختر عباس مرحوم ابن الحاج مبارک حسین کربلائی مرحوم مبارکپور ،اعظم گڑھ(یو پی) کی جانب سے منعقدہ سالانہ مجالس عزا بسلسلہ یاد سکینہ بنت الحسین ؑ ،ایام عزاء کے آخری ہفتہ کے انیسویں دور میں ’’ قرآن اور اہل بیتؑ ‘‘کے موضوع پر خطاب کے دوران کیا ۔

مولانا نے مزید فرمایا کہ بسم اللہ ہی وہ قرآن مجید کی آیت ہے جو ہر سورہ کی ابتداء میں لکھی ہوئی ملے گی اور نزول قرآن سے قبل ہرنبیؐ و رسولؐ کے دور میں اس کاوجود ملتا ہے۔چنانچہ حضرت نوح (ع) نے کشتی میں سوار ہوتے وقت فرمایا: بِسْمِ اللہِ مَجْؔــرٖىہَا وَمُرْسٰىہَا۝۰ۭ (۱۱ ہود : ۴۱) حضرت سلیمان (ع) نے ملکہ سبا کے نام اپنے خط کی ابتدا بسم اللہ سے کی: اِنَّہٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ (۲۷ نمل : ۳۰) حضرت خاتم الانبیاء (ص) پرجب پہلی بار وحی نازل ہوئی تو اسم خدا سے آغازکرنے کاحکم ہوا: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ ۔ (۹۶ علق: ۱)

اسی طرح مولائے کائنات حضرتت علی ابن ابی طالب علیہ السلام بظاہر ۱۳؍رجب المرجب ۳۰عا؁ م الفیل مطابق ۱۱؍اکتوبر ۵۹۸ء؁ کو دنیا میں پیدا ہوئے مگر بباطن ہر نبیؐ و رسول ؐکے دور میں آپ نے مشکل کی گھڑی میں سب کی مشکل کشائی کی ہے۔خود مولا علی ؑ کا ارشاد ہے : نصرت الانبیاء سراً و نصرت محمداً جہراً ’’یعنی میں نے ہر نبی کی مدد کی ہے مخفی طور پر محمد مصطفیٰ ؐ کی مدد کی ہے کھلم کھلا اعلانیہ طور پر‘‘۔اور یہیں سے یہ بات بھی سمجھ لیجئے کہ قرآن اہل بیت سے ہے اور اہل بیت قرآن سے ہیں۔

آخر میں مولانا نے حضرت سکینہ بنت الحسین ؑ کی قید خانہ شام میں پردرد شہادت کے احوال بیان کئے جسے سن کر سامعین کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔

واضح ہو مبارکپور میں ایام عزا کا آخری دن الوداعی مجالس و جلوس عماری و نوحہ و ماتم اور یا حسینؑ یا حسینؑ کی رقت آمیز صداؤں سے فضا گونج اٹھی ۔ اور ایام عزاء کے آخری ہفتہ کی یہ سالانہ مجالس کا انیسواں دور ہے اور ان مجالس کے آغاز سے آج تک مسلسل ڈاکٹر مولانا سید کاظم مہدی عروج جونپوری مقیم لکھنؤ خطاب فرمارہے ہیں اور ہر سال مختلف موضوعات پر۔ ربِّ حسین ؑ مولانا ممدوح کو صحت و سلامتی کے ساتھ طول عمر عطا فرمائے آمین

پروگرام کا آغاز محمد بھائی سوز خوان و ہمنوا اور فیضان عباس سوزخواں وہمنوا کی سوز خوانی سے ہوا ۔اورانجمن انصار حسینی قدیم نے نوحہ خوانی و سینہ زنی کی ۔اس موقع پر مولانا ابن حسن املوی واعظ بانی و سرپرست حسن اسلامک ریسرچ سینٹر املو ، مولانا مظاہر حسین معروفی،مولانا نفیس مبارکپوری،شہاب،شاداب،ظفر عباس، حاجی محمد رضا ،ظفر احمد ،محمد قاسم جوادی سمیت کثیر تعداد میں عزاداران حسین ؑ نے شرکت کی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .