۲۳ آبان ۱۴۰۳ |۱۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 13, 2024
اردو زبان

حوزہ/ دنیا جس کا تصور ہر فرد کے لئے مختلف ہے جو کئی برا اعظم پر مشتمل ہے، انہی براعظموں میں ایک بڑا براعظم ایشیا ہے؛ ایشیا جس میں کئی خطے ہیں، جس میں سے ایک خطہ جسے دنیا بنام برصغیر جانتی ہے۔

تحریر: مزمل حسیـــــن علیمیؔ آسامی ،علیمیؔ اکیڈمی آف آسام

حوزہ نیوز ایجنسی|

”جو یہ ہندوستاں نہیں ہوتا

تو یہ اردو زباں بھی نہیں ہوتی“

یہ لائنیں ہمیں بتاتی ہیں کہ اردو کیا ہے؟ کہاں سے آئی ہے؟اور کہاں پروان چڑھی ہے ؟

دنیا جس کا تصور ہر فرد کے لئے مختلف ہے جو کئی برا اعظم پر مشتمل ہے، انہی براعظموں میں ایک بڑا براعظم ایشیا ہے؛ ایشیا جس میں کئی خطے ہیں، جس میں سے ایک خطہ جسے دنیا بنام برصغیر جانتی ہے، وہ برصغیر جس کے احاطے میں سات ممالک اور وطن عزیز ہندوستان بھی شامل ہے۔ یہ انوکھا ملک دنیا میں اپنی ایک الگ ہی شناخت رکھتا ہے، جو اپنی آغوش میں مختلف مذاھب اور مختلف زبانیں بولنے والے کو بسائے ہوئے ہے۔ جن میں کل اکیس صوبائی اور پھر ہر صوبے کی سیکڑوں علاقائی زبانیں ہیں انہیں میں ایک شیریں زبان اردو ہے۔

اردو "12 - 16” صدی کے مابین جنوب مغربی ہندوستان میں گنگا جمنا تہزیب کا روپ لیتے ہوئے ہندو اور مسلم کے عام بول چال میں پروان چھڑتی ہے جسے اُس وقت "اردو ، ہندی، ہندوستانی،دکنی، ریختہ اور زبانِ ہند” کے نام سے جانی جاتی تھی۔ اُس وقت یہ زبان دیگر تمام ہندوستانی زبانوں پر صدارتی رول نبھاتی تھی یہی وجہ ہے کہ دیگر صوبائی زبانوں میں اردو الفاظ کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں ۔
گاندھی جی (12 اکتوبر 1869ء— وفات 30 جنوری 1948ء) دیگر ہندوستانی زبانوں کی طرح اردو کو بھی یکساں زبان تسلیم کرتے اور انہوں نےاس کی ترقی کے لئے بہت قربانیاں بھی دی ہیں۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ گاندھی جی جنوبی افریقہ سے لوٹنے کے بعد ہندی، انگریزی اور گجراتی زبان میں نکالی جانے والی” ہریجن سیوک“ نامی اخبار کو 1946ء میں اردو میں بھی نکالنا شروع کیا۔ غلام محمد صاحب کہتے ہیں کہ اس وقت یہ اخبار دیگر اخباروں سے کئی گنا زیادہ بکتا تھا- مزید کہتے ہیں کہ اردو کے لئے گاندھی جی کی بے شمار خدمات ہیں- گاندھی جی کو اردو سے اس قدر والہانہ محبت تھی کہ وہ اپنے خطوط بھی اردو میں لکھتے پھر ان مکتوبات پر دستخط بھی کرتے تھے۔

مصنفِ کتب کثیرہ منشی پریم چند (31جولائی 1880ء— وفات 8 اکتوبر 1936ء) کہتے ہیں کہ جس طرح انگریز کی زبان "انگریزی“ چین کی زبان "چینی“ اسی طرز پر ہندی و اردو ہندستانی زبان ہے۔ انہوں نے اردو میں کئی کتابیں لکھیں ہیں جن میں مشہور کتاب ”بازار حسن“ جو اب بھی مارکیٹ میں مقبول و عام ہے ۔ جنگ آزادی میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اردو نے بھی اہم رول ادا کیا ہے۔ مجاہدین اور دیگر ہندوستانیوں کو ان نعروں سے طاقت اور ہمت ملتی تھی –

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

اب اگر کوئی یہ کہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان یا پھر پاکستانیوں کی زبان ہے۔ تو میں کہوں گا کہ وہ ان پڑھ اور جاہل ہے جسے تاریخ کا کچھ علم نہیں۔ تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہندی- اردو سے بنی ہے۔ 1837ء میں جب ہندوستان میں برطانوی حکومت کی چلتی تھی تب اس وقت برطانوی حکومت نےدیگر زبانوں کو خارج کر دیاتھااور اردو کو دفتری زبان ہونے کی سعادت عطا کی تھی۔ تب ہندوؤں نے جدید ہندی کے لئے ایک تحریک چلائی اور انہیں اس میں نمایاں کامیابی بھی ملی ہے۔ پھر یہ دو زبان اردو برائے مسلم اور ہندی برائے ہندو ہوجاتی ہے جس کے نتائج میں ہندوستان کو دو حصے بھارت اور پاکستان میں تقسیم ہونے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔

اردو والے پاکستان ہجرت کر جانے کے بعد بھی بہت مخلص شعراء، خطبا اور ادباء حضرات مشرق جنوبی ہندوستان ہی میں رہائش پذیر ہو جاتے ہیں۔ پھر وہاں سے آہستہ آہستہ اردو کا فروغ ہونے لگتا ہے۔ اردو حیدرآباد و تلنگانہ ہوتے ہوئے صوبہ اترپردیش کو دستک دیتی ہے اور اترپردیش کو اپنا گھر بنا لیتی ہے اس وقت تا ہنوز اترپردیش اردو کا ایک میعاری صوبہ رہا ہے اور آج بھی یہ صوبہ اردو کا ایک مضبوط قلعہ ہے۔ اسی لئے اترپردیش کو اردو کا ہیڈ آفس کہا جاتا ہے۔

اترپردیش کے علاوہ بھارت کی کئی ریاستوں میں مثلاً بہار، جھارکھنڈ وغیرہ میں اردو دوسری سرکاری زبان کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ ماہرین لسانیات کہتے ہیں کہ اردو و ہندی ایک ہی زبان ہے مگر دو شکلیں ہیں اسی لئے منور رانا کہتے ہیں کہ

لیپٹ جاتا ہوں ماں سے اور موسی مسکراتی ہے

میں اردو میں غزل لکھتا ہوں ہندی مسکراتی ہے

ماہرین لسانیات مزید کہتے ہیں کہ پہلے برصغیر میں بولی جانے والی یہ زبان اب ایشیا کے متعدد مقامات پر بولی جارہی ہے اور یہ دنیا کی ساتویں سب سے بڑی زبان ہے۔ اور اگر دونوں (ہندی اردو) کو ایک کر دیا جائے تب دنیا کی چوتھی سب سے بڑی زبان ہوگی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .