ہفتہ 7 دسمبر 2024 - 08:56
امام حسین (ع) سے منقول امیرالمومنین (ع) کی مظلومیت

حوزہ/ یا رسول اللہ! میرے دل میں ایک ایسا غم ہے جو انتہائی دلخراش اور بے حد دردناک ہے اور یہ غم میرے دل میں جوش مار رہا ہے۔ کتنی جلدی ہمارے درمیان جدائی آ گئی! میں خداوند کی بارگاہ میں شکایت کرتا ہوں اور عنقریب آپ کی بیٹی آپ کو اس امت کے مظالم، اپنی حق تلفی اور اپنے حق کے غصب ہونے کی خبر دے گی۔ آپ اس سے احوال دریافت کریں کیونکہ وہ اپنے دل میں ایسے شدید غموں کا بوجھ رکھتی ہیں جنہیں بیان کرنے کا کوئی راستہ نہ تھا اور وہ جلد آپ کو سب کچھ بتائے گی۔

حوزہ نیوز ایجنسی| رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت علی علیہ السلام اور ان کے خاندان پر ہونے والے مظالم اور حق خلافت کے غصب ہونے سے حضرت علی علیہ السلام شدید غم اور بے عدالتیوں کے دکھ سہتے رہے۔

اس سلسلے میں امام حسین علیہ السلام نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی غربت اور گہرے رنج و غم اور حضرت علی علیہ السلام کی غربت، مظلومیت اور رسول خدا (ص) سے ان کی امت کی شکایت کا ایک واقعہ نقل فرمایا ہے۔

جب حضرت علی علیہ السلام نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو الوداع کہنے اور ان کی تدفین کے آخری لمحات میں اپنے اور بیمار زوجہ کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی شکایت کی اور آخر کار انتہائی گریہ کے عالم میں اور اپنی بے جان فریاد کے ساتھ انہوں نے اپنی اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی مظلومیت اور غربت کا تذکرہ فرمایا۔ درج ذیل روایت کا تجزیہ اس واقعہ اور اسلامی معاشرے پر اس کے اثرات کو واضح کرتا ہے:

عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدٍ اَلْهُرْمُزَانِیِّ عَنْ عَلِیِّ بْنِ اَلْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ أَبِیهِ اَلْحُسَیْنِ عَلَیْهِ السَّلاَمُ قَالَ:

لَمَّا مَرِضَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ اَلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ وَصَّتْ إِلَی عَلِیٍّ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیْهِ أَنْ یَکْتُمَ أَمْرَهَا وَ یُخْفِیَ خَبَرَهَا وَ لاَ یُؤْذِنَ أَحَداً بِمَرَضِهَا

فَفَعَلَ ذَلِکَ وَ کَانَ یُمَرِّضُهَا بِنَفْسِهِ وَ تُعِینُهُ عَلَی ذَلِکَ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَیْسٍ رَحِمَهَا اَللَّهُ عَلَی اِسْتِسْرَارٍ بِذَلِکَ کَمَا وَصَّتْ بِهِ

فَلَمَّا حَضَرَتْهَا اَلْوَفَاةُ وَصَّتْ أَمِیرَ اَلْمُؤْمِنِینَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ أَنْ یَتَوَلَّی أَمْرَهَا وَ یَدْفِنَهَا لَیْلاً وَ یُعَفِّیَ قَبْرَهَا

فَتَوَلَّی ذَلِکَ أَمِیرُ اَلْمُؤْمِنِینَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ وَ دَفَنَهَا وَ عَفَّی مَوْضِعَ قَبْرِهَا فَلَمَّا نَفَضَ یَدَهُ مِنْ تُرَابِ اَلْقَبْرِ هَاجَ بِهِ اَلْحُزْنُ

فَأَرْسَلَ دُمُوعَهُ عَلَی خَدَّیْهِ وَ حَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَی قَبْرِ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّی اَللَّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ

فَقَالَ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اَللَّهِ مِنِّی وَ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ مِنِ اِبْنَتِکَ وَ حَبِیبَتِکَ وَ قُرَّةِ عَیْنِکَ وَ زَائِرَتِکَ وَ اَلْبَائِتَةِ فِی اَلثَّرَی بِبُقْعَتِکَ

وَ اَلْمُخْتَارِ لَهَا اَللَّهُ سُرْعَةَ اَللَّحَاقِ بِکَ قَلَّ یَا رَسُولَ اَللَّهِ عَنْ صَفِیَّتِکَ صَبْرِی وَ ضَعُفَ عَنْ سَیِّدَةِ اَلنِّسَاءِ تَجَلُّدِی إِلاَّ أَنَّ فِی اَلتَّأَسِّی لِی بِسُنَّتِکَ وَ اَلْحُزْنِ اَلَّذِی حَلَّ بِی بِفِرَاقِکَ مَوْضِعَ اَلتَّعَزِّی

فَلَقَدْ وَسَّدْتُکَ فِی مَلْحُودِ قَبْرِکَ بَعْدَ أَنْ فَاضَتْ نَفْسُکَ عَلَی صَدْرِی وَ غَمَّضْتُکَ بِیَدِی وَ تَوَلَّیْتُ أَمْرَکَ بِنَفْسِی نَعَمْ وَ فِی کِتَابِ اَللَّهِ أَنْعَمُ اَلْقَبُولِ، إِنّٰا لِلّٰهِ وَ إِنّٰا إِلَیْهِ رٰاجِعُونَ.

لَقَدِ اُسْتُرْجِعَتِ اَلْوَدِیعَةُ وَ أُخِذَتِ اَلرَّهِینَةُ وَ اُخْتُلِسَتِ اَلزَّهْرَاءُ فَمَا أَقْبَحَ اَلْخَضْرَاءَ وَ اَلْغَبْرَاءَ

یَا رَسُولَ اَللَّهِ أَمَّا حُزْنِی فَسَرْمَدٌ وَ أَمَّا لَیْلِی فَمُسَهَّدٌ لاَ یَبْرَحُ اَلْحُزْنُ مِنْ قَلْبِی أَوْ یَخْتَارَ اَللَّهُ لِی دَارَکَ اَلَّتِی أَنْتَ فِیهَا مُقِیمٌ کَمَدٌ مُقَیِّحٌ وَ هَمٌّ مُهَیِّجٌ سَرْعَانَ مَا فَرَّقَ بَیْنَنَا وَ إِلَی اَللَّهِ أَشْکُو.

وَ سَتُنَبِّئُکَ اِبْنَتُکَ بِتَضَافُرِ أُمَّتِکَ عَلَیَّ وَ عَلَی هَضْمِهَا حَقَّهَا فَاسْتَخْبِرْهَا اَلْحَالَ فَکَمْ مِنْ غَلِیلٍ مُعْتَلِجٍ بِصَدْرِهَا لَمْ تَجِدْ إِلَی بَثِّهِ سَبِیلاً وَ سَتَقُولُ وَ یَحْکُمُ اَللَّهُ وَ هُوَ خَیْرُ اَلْحٰاکِمِینَ

سَلاَمٌ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اَللَّهِ سَلاَمَ مُوَدِّعٍ لاَ سَئِمٍ وَ لاَ قَالٍ فَإِنْ أَنْصَرِفْ فَلاَ عَنْ مَلاَلَةٍ وَ إِنْ أُقِمْ فَلاَ عَنْ سُوءِ ظَنٍّ بِمَا وَعَدَ اَللَّهُ اَلصَّابِرِینَ

وَ اَلصَّبْرُ أَیْمَنُ وَ أَجْمَلُ وَ لَوْ لاَ غَلَبَةُ اَلْمُسْتَوْلِینَ عَلَیْنَا لَجَعَلْتُ اَلْمُقَامَ عِنْدَ قَبْرِکَ لِزَاماً وَ لَلَبِثْتُ عِنْدَهُ مَعْکُوفاً وَ لَأَعْوَلْتُ إِعْوَالَ اَلثَّکْلَی عَلَی جَلِیلِ اَلرَّزِیَّةِ

فَبِعَیْنِ اَللَّهِ تُدْفَنُ اِبْنَتُکَ سِرّاً وَ تُهْتَضَمُ حَقَّهَا قَهْراً وَ تُمْنَعُ إِرْثَهَا جَهْراً وَ لَمْ یَطُلِ اَلْعَهْدُ وَ لَمْ یَخْلُ مِنْکَ اَلذِّکْرُ

فَإِلَی اَللَّهِ یَا رَسُولَ اَللَّهِ اَلْمُشْتَکَی وَ فِیکَ أَجْمَلُ اَلْعَزَاءِ - وَ صَلَوَاتُ اَللَّهِ عَلَیْکَ وَ عَلَیْهَا وَ رَحْمَةُ اَللَّهِ وَ بَرَکَاتُهُ .

علی بن محمد ہرمزانی نے امام سجاد علیہ السلام سے اور انہوں نے اپنے والد امام حسین علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:

جب حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا، دختر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار ہوئیں تو انہوں نے حضرت علی علیہ السلام کو وصیت کی کہ ان کی بیماری کو پوشیدہ رکھا جائے اور کسی کو اس کی خبر نہ دی جائے۔ حضرت علی علیہ السلام نے ایسا ہی کیا اور خود ان کی تیمارداری کی۔ اسماء بنت عمیس نے بھی مخفیانہ جیسا کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے وصیت کی تھی، ان کی مدد کی۔

جب حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے حضرت علی علیہ السلام کو وصیت کی کہ "وہ خود ان کی تدفین کا انتظام کریں، انہیں رات کی تاریکی میں دفن کریں اور ان کی قبر کو چھپا دیں (زمین کے ساتھ ہموار کر دیں تاکہ کوئی جگہ معلوم نہ کر سکے)"۔

حضرت علی علیہ السلام نے خود ان کی تدفین کی ذمہ داری لی، انہیں دفن کیا اور ان کی قبر کو پوشیدہ رکھا۔ جب آپ علیہ السلام نے قبر کی مٹی اپنے ہاتھوں سے صاف کی تو غم و اندوہ نے ان کے دل کو گھیر لیا اور ان کی آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب بہنے لگا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی طرف رخ کیا اور کہا:

"یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو، اور آپ کی بیٹی، آپ کی حبیبہ، آپ کی نورِ نظر اور آپ کی زیارت کرنے والی کی طرف سے بھی آپ پر سلام ہو، وہ جو آپ کے قریب خاک میں آرام کر رہی ہیں اور جنہیں خداوند متعال نے جلدی آپ سے ملاقات کے لیے چن لیا ہے۔

یا رسول اللہ! آپ کی بیٹی کی جدائی نے میرا صبر کمزور کر دیا ہے اور خواتین عالم کی سردار کے فراق نے گویا میری قوت ختم کر دی ہے، مگر آپ کی سیرت پر عمل اور آپ کی جدائی کے غم میں صبر کرتے ہوئے میں اس مصیبت کو برداشت کر رہا ہوں۔ میں نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے دفن کیا، جب آپ کی روح میری گود میں قبض ہوئی، اور میں نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔ قرآن مجید کی آیت "إِنّٰا لِلّٰهِ وَ إِنّٰا إِلَیْهِ رٰاجِعُونَ"یعنی ہم سب اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں" (سورۃ البقرہ: 156) نے مجھے تسلی دی۔"

امانت واپس لے لی گئی اور گروی شدہ چیز لوٹا دی گئی۔ فاطمہ زہرا کو بہت جلد مجھ سے جدا کر دیا گیا۔

اے رسول اللہ! اب یہ نیلا آسمان اور یہ زمین میرے لیے بے رنگ اور اچاٹ ہو چکے ہیں۔ میرا غم دائمی ہو گیا ہے اور میری راتیں بیداری میں گزر رہی ہیں۔ یہ غم کبھی ختم نہیں ہوگا، یہاں تک کہ اللہ مجھے اسی مقام پر لے آئے جہاں آپ مقیم ہیں۔

میری شکایت خداوند کی طرف ہے۔ آپ کی بیٹی عنقریب آپ کو بتائے گی کہ آپ کی امت نے ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا اور کس طرح ان کا حق غصب کیا گیا۔ آپ ان سے دریافت کریں، کیونکہ ان کے دل میں جلے ہوئےاور سوزان غموں کا بوجھ تھا، جنہیں وہ بیان نہ کر سکیں۔ خدا ہی بہترین منصف ہے۔

یا رسول اللہ! آپ پر اور آپ کی بیٹی پر درود و سلام ہو، وداع کرنے والا سلام، نہ غصے والا اور نہ مایوسی والا۔ اگر میں آپ کی قبر پر رکوں تو یہ ملامت اور دلتنگی کی وجہ سے نہیں، اور اگر میں یہاں سے چلا جاؤں تو یہ اللہ کے وعدے پر بدگمانی کی وجہ سے نہیں۔ بے شک صبر سب سے بہتر اور خوبصورت چیز ہے۔

اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ غلبہ پانے والے ہم پر حاوی ہو جائیں گے (اور آپ کی بیٹی کی قبر کھود دیں گے) تو میں آپ کی قبر کے قریب رہنا لازم کر لیتا اور وہاں اعتکاف کرتا اور ایک ماں کے اپنے فرزند کے فراق کے غم میں روتا رہتا۔

آپ کی بیٹی خدا کے حضور چپکے سے دفن کر دی گئی، ان کا حق زبردستی چھین لیا گیا اور انہیں ان کے حقِ میراث سے کھلم کھلا محروم کر دیا گیا حالانکہ آپ کی وفات کو زیادہ وقت نہیں گزرا تھا اور آپ کی یاد بھی فراموش نہیں ہوئی تھی۔

یا رسول اللہ! میں خدا کی طرف شکایت کرتا ہوں۔ بہترین صبر وہی ہے جو آپ کے غم پر کیا جائے۔ اللہ کی رحمت، برکت اور سلامتی آپ پر اور آپ کی بیٹی(فاطمہ) پر ہو۔"

کتاب: الأمالی (للمفید)، ج ۱، ص ۲۸۱

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha