حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ مرندی اپنی زندگی کی اوجِ معنویت اور عبادت میں اس قدر غرق تھے کہ ہر لمحہ ان کے دل میں عشقِ الٰہی اور دیدارِ حق تعالیٰ کی تڑپ محسوس کی جا سکتی تھی۔ ان کی عبادت، اشک ریزی اور خوفِ خدا کا عالم یہ تھا کہ وہ خود فرماتے تھے: "مجھے تعجب ہے کہ اب تک دیوانہ کیوں نہیں ہوا!"
آیت اللہ مرندی کے فرزند کے بقول: "والد گرامی ہمیشہ رات کو جلدی سوجاتے تاکہ سحر کے وقت نماز شب اور مناجات کے لئے آمادہ ہوں۔ بیدار ہونے کے بعد وہ کچھ چائے نوش کرتے تاکہ عبادت میں نشاط اور تازگی پیدا ہو۔"
ان کی اہلیہ محترمہ نے بھی ایک واقعہ یوں بیان کیا: "ایک شب میں بیدار ہوئی تو دیکھا کہ آقا نیم شب کی خاموشی میں ابرِ بہاری کی طرح اشک بہا رہے ہیں، ان کے گریہ و زاری کی آواز نے سکوتِ شب کو توڑ دیا تھا۔ میں نے حیرت سے پوچھا: آقا! یہ سب گریہ کس بات پر ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ‘اس چیز سے جو میں جانتا ہوں اگر آپ واقف ہوتیں تو پہاڑوں کی طرف بھاگ جاتیں!’ اور ساتھ ہی کہا: ‘مجھے تعجب ہے کہ اب تک دیوانہ کیوں نہیں ہوا!’"
یہ کیفیت ہمیں نہج البلاغہ کے کلماتِ امیرالمؤمنینؑ کی یاد دلاتی ہے جہاں آپؑ نے فرمایا: "اے خدا کے بندو! اس طرح تقویٰ اختیار کرو جیسے ایک صاحبِ عقل انسان، جسے مبدأ اور معاد کی فکر نے گھیر لیا ہو، خوفِ خدا نے اس کے بدن کو لرزا دیا ہو، عبادتِ شب نے اس کی نیند کو چھین لیا ہو اور باقی تھوڑی نیند بھی اس سے سلب ہو گئی ہو۔" (نہج البلاغہ، خطبہ 83)









آپ کا تبصرہ