تحریر: فاطمـی فـدا
حوزہ نیوز ایجنسی|
مقدمہ:
علامہ اقبال کی زندگی کا مختصر تعارف
علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ برصغیر کے عظیم شاعر، مفکر، فلسفی، اور سیاستدان تھے جنہیں ’’شاعرِ مشرق‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کی، پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفہ میں ایم اے کیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان اور جرمنی گئے، جہاں کیمبرج یونیورسٹی اور میونخ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
اقبال نے شاعری کو صرف فن نہیں، بلکہ فکر و عمل کی بیداری کا ذریعہ بنایا۔ ان کی تصانیف بانگِ درا، بالِ جبریل، ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز میں انسان کی خودی، ایمان، اور عمل کی قوت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ 21 اپریل 1938ء کو اقبال لاہور میں وفات پا گئے، مگر ان کے افکار آج بھی زندہ ہیں، اور خاص طور پر نوجوان نسل کے لیے ایک مشعلِ راہ ہیں۔
اقبال نے اپنی شاعری میں جس نوجوان کا تصور پیش کیا تھا، وہ صرف ایک فرد نہیں بلکہ ایک فکر، ایک تحریک اور ایک انقلاب کا پیکر تھا۔ اقبال کا نوجوان وہ ہے جو ستاروں پر کمند ڈالنے والا، خوددار، مومن، عمل پسند اور علم و ایمان سے مزین ہو۔ آج جب ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں، تو محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کے اشعار آج بھی زندہ ہیں — بلکہ ان کی صداقت آج کے حالات میں پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہو چکی ہے۔
اقبال نے فرمایا تھا:
نہیں ہے نااُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!
یہ شعر صرف ایک امید کا پیغام نہیں بلکہ عمل اور بیداری کی دعوت ہے۔ آج کے نوجوان کو مایوسی کے اندھیروں سے نکل کر خودی کی روشنی میں اپنا راستہ بنانا ہوگا۔ اقبال نے نوجوان کو امتِ مسلمہ کی تجدید کا محور قرار دیا۔ ان کے نزدیک اگر نوجوان اپنی خودی پہچان لے، تو پوری قوم کا مقدر بدل سکتا ہے۔
اقبال کا خواب اور آج کا زمانہ
اقبال کا خواب صرف ایک جغرافیائی ریاست کا نہیں تھا، بلکہ ایک باکردار، بااخلاق اور خوددار قوم کا خواب تھا۔ وہ نوجوان جو علم کے ساتھ شعور رکھتا ہو، جو دنیا کے بدلتے حالات کو قرآن و سنت کے آئینے میں دیکھ سکے۔ آج دنیا تیز رفتاری سے بدل رہی ہے — ٹیکنالوجی، میڈیا، فتنوں اور فکری انتشار کے اس دور میں نوجوان کی ذمہ داری پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔
اقبال نے فرمایا تھا:
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے،
مرا عشق، میری نظر بخش دے!
یہ دراصل ایک دعا اور تحریک ہے — کہ نوجوان صرف خواب نہ دیکھے بلکہ ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا حوصلہ بھی رکھے۔
قوم کی بہالی کے لیے نوجوان کی ذمہ داری
آج اگر ہماری قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ہے تو سب سے پہلے نوجوانوں کو اپنی خودی اور مقصدِ حیات کا شعور حاصل کرنا ہوگا۔ اقبال نے کہا تھا:
> خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے،
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے!
یہ شعر محض شاعری نہیں — بلکہ زندگی کا منشور ہے۔ اقبال کے نزدیک نوجوان وہ ہے جو حالات سے نہیں گھبراتا، جو ایمان، علم، اور عمل کے ساتھ مشکلات کا مقابلہ کرتا ہے۔ وہ نوجوان جو وقت کے دھارے کے ساتھ بہنے کے بجائے، اس دھارے کا رخ موڑ دیتا ہے۔ آج ہمارے تعلیمی ادارے، سوشل میڈیا، اور معاشرتی ماحول نوجوان کو غفلت، دکھاوے اور فکری انتشار میں مبتلا کر رہے ہیں۔ لیکن اگر نوجوان اقبال کے فلسفے کو سمجھ لے، تو وہ اپنی قوم کے لیے امید کا چراغ بن سکتا ہے۔
اقبال کا نظریہ اور آج کی حقیقت
اقبال نے جو باتیں سو سال پہلے کہی تھیں، وہ آج عالمی منظرنامے پر حرف بہ حرف پوری ہو رہی ہیں۔ اقبال نے مغربی تہذیب کے ظاہری چمک دمک میں چھپی روحانی و اخلاقی کھوکھلاپن کو پہلے ہی بھانپ لیا تھا۔
> تمدن، تصوف، شریعت، کلام — بتانِ عجم کے پُرانے صنم ہیں!
یہ سب کچھ ہے افکار کی جنگ کا ساماں، مگر زندگی بے عمل کی کماں ہے!
آج جب دنیا مادیت، طاقت، اور خود غرضی کے محور پر گھوم رہی ہے، اقبال کا پیغام انسانیت کو روحانی توازن اور اخلاقی قوت کا سبق دیتا ہے۔
نوجوان کا راستہ — راہِ عمل، ایمان اور خودی
اقبال کے نزدیک نوجوان کی اصل طاقت عمل، یقین اور عشقِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم ہے۔ نوجوان اگر قرآن کو اپنا رہنما بنائے، سیرتِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کو اپنی روشنی، اور اقبال کے افکار کو اپنی سمت — تو قوم کی بہالی کوئی خواب نہیں رہے گی۔
اقبال کے الفاظ میں:
> ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں،
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں!
اختتامیہ
آج کا نوجوان اگر اپنی خودی کو پہچان لے، اقبال کے فلسفے کو سمجھ لے، اور اسلام کو اپنا نظامِ حیات بنا لے — تو وہ نہ صرف اپنی زندگی بلکہ اپنی قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے۔
اقبال کا خواب دراصل آج کے نوجوان کے بیدار ہونے سے ہی پورا ہوگا۔









آپ کا تبصرہ