حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عالمی یومِ اردو اور یومِ اقبالؒ کے موقع پر پروفیشنلز آف تحریکِ بیداریِ اُمتِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے زیرِ اہتمام، جامعۃ العروۃ الوثقى لاہور میں قومی اُردو کانفرنس کا انعقاد ہوا؛ جس کا عنوان “اردو قومی زبان، قومی تشخص، قومی پہچان” تھا۔ کانفرنس کی صدارت سربراہ تحریکِ بیداریِ اُمتِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم علامہ سید جواد نقوی نے کی، جبکہ ملک کی نامور علمی، ادبی، فکری، لسانی اور صحافتی شخصیات شریک ہوئیں۔
اس موقع پر علامہ سید جواد نقوی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ایک خصوصی نعمت کے طور پر یہ موقع عطاء کیا کہ وہ اپنی توحیدی، خالص اور الگ پہچان کیساتھ دنیا میں اُبھرے۔ یہ وہ موقع ہے جو دیگر اقوام کو نصیب نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنی پیدائش کے دن سے ہی ایک نظریاتی اور فکری تشخص حاصل تھا، جسے علامہ اقبالؒ نے "خودی" سے تعبیر کیا ہے، تاہم قیامِ پاکستان کے بعد اس کی تعمیر و تکمیل کا عمل ابھی باقی ہے جو دراصل اس کی زبان، فکری اور تہذیبی شناخت سے وابستہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے عقدِ اخوت قائم کرتے وقت جن بنیادوں پر امت کو جوڑا، ان میں ایمان، تاریخ، تہذیب اور زبان شامل تھیں۔ زبان ان تمام عناصر کی ترجمان ہے جو کسی قوم کے ایمان، تاریخ اور تہذیب کی امین ہوتی ہے۔ اگر زبان کمزور ہو جائے تو قوم کی فکری بنیادیں بھی کمزور پڑ جاتی ہیں۔
انہوں نے اس موقع پر زور دیا کہ اردو زبان ہماری قومی پہچان کا مظہر اور فکری وحدت کی بنیاد ہے۔ اس کا تحفظ، فروغ اور نفاذ قومی فریضہ ہے۔ قومی ترقی اور فکری استحکام کیلئے اردو زبان کو سرکاری، دفتری اور تعلیمی سطح پر مکمل طور پر رائج کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جدید علوم و فنون کو اردو میں منتقل کر کے نوجوان نسل کیلیے علم تک رسائی آسان بنائی جا سکتی ہے۔
علامہ سید جواد نقوی نے عوام سے گھریلو سطح پر تحریکِ نفاذِ اردو شروع کرنے کی تاکید کی، تاکہ مقتدر اداروں کو آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 251 پر عملدرآمد کیلئے شعوری دباؤ پیدا کیا جا سکے اور قومی زبان اردو کو حقیقی معنوں میں سرکاری و عوامی سطح پر نافذ کیا جائے۔
مقررین نے اردو زبان کی قومی حیثیت، تہذیبی بنیادوں، علمی و فکری کردار اور موجودہ دور میں اس کے فروغ کے تقاضوں پر اظہارِ خیال کیا۔ان کا کہنا تھا کہ اردو محض رابطے کی زبان نہیں، بلکہ ہماری فکری وحدت، تہذیبی استقامت اور قومی تشخص کی بنیاد ہے۔









آپ کا تبصرہ