تحریر: مولانا بشارت حسین زاہدی
حوزہ نیوز ایجنسی | علامہ اقبال کا فلسفۂ خودی دراصل قرآن و سنت کی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ یہ انسان کو اپنی ذات کی حقیقی پہچان عطا کرتا ہے، اسے اللہ پر کامل یقین اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد سکھاتا ہے۔ اقبال کا "مردِ مومن" اور "شاہین" محض استعارے نہیں بلکہ یہ اُس کردار کی عملی تصویر ہیں جو اپنی تقدیر خود بناتا ہے اور باطل کے سامنے سر نہیں جھکاتا۔
آج کے اس پُرآشوب دور میں، جب ملتِ اسلامیہ کو فکری، نظریاتی اور عملی چیلنجز کا سامنا ہے، فکرِ اقبال کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اقبال ہمیں فکری غلامی کی زنجیروں کو توڑنے، تفرقہ بازی سے بالاتر ہو کر امتِ واحدہ بننے اور علم و تحقیق کے میدان میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کا درس دیتے ہیں۔
بحیثیتِ قوم اور خصوصاً ارضِ مقدس قم میں علم حاصل کرنے والے طلاب کی حیثیت سے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم نہ صرف کلامِ اقبال کو پڑھیں بلکہ اس کی روح کو سمجھیں اور اپنے عمل سے ثابت کریں کہ ہم اقبال کے حقیقی شاہین ہیں۔
آئیے، آج یومِ اقبال (۹ نومبر) پر ہم یہ عہد کریں کہ ہم علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر یعنی ایک متحد، خوددار اور باشعور ملت کی تشکیل کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔









آپ کا تبصرہ