جمعہ 28 نومبر 2025 - 20:41
کتابتِ حدیث، شیعہ اور اہلِ سنت میں کب شروع ہوئی؟

حوزه/ حدیث لکھنے کی ابتدا پر بحث ہمیں شیعہ اور اہلِ سنت کی دو الگ تاریخی سمتوں تک لے جاتی ہے؛ وہ راستہ جو زمانۂ رسولِ اکرم (ص) میں روایات کے ابتدائی اندراج سے شروع ہوا، اور جو بعد میں پابندیوں، سیاسی حالات اور مذہبی رویّوں کی تبدیلی کے باعث دو مستقل علمی و حدیثی روایتوں میں تقسیم ہوگیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی I کتابتِ حدیث "یعنی رسولِ اکرم (ص) اور اہلِ بیت علیہم السلام کی روایات کو تحریری صورت میں محفوظ کرنا" اسلامی سنت کے تحفظ اور نسلوں تک اس کی درست منتقلی کا سب سے بنیادی ذریعہ ہے۔

اگرچہ خود رسولِ خدا (ص) نے اپنی زندگی ہی میں حدیث لکھنے کی اجازت بلکہ ترغیب دی تھی اور چند صحابہ نے احادیث کے صحیفے بھی تیار کیے تھے، لیکن حضورؐ کے وصال کے بعد شیعہ اور اہلِ سنت کے درمیان کتابت حدیث کے سلسلے میں نمایاں فرق سامنے آیا۔

زمانۂ رسالت میں کتابتِ حدیث

رسول اللہ (ص) کے عہد مبارک میں حدیث لکھنا ایک معروف اور قابلِ قبول عمل تھا۔ ابو رافع، سلمان فارسی اور ابوذر غفاری جیسے صحابہ احادیث کو لکھتے تھے۔ خود نبی اکرم (ص) کبھی کبھی حضرت علیؑ کو روایات املا کرواتے تھے۔ اسی زمانے کی معروف تحریر “کتابِ علیؑ“ کو ابتدائی ترین مدون اسلامی متن مانا جاتا ہے۔

رحلتِ رسولؐ کے بعد کتابتِ حدیث پر پابندی

رسول اللہ (ص) کے وصال کے بعد حکومت میں ایک نئی پالیسی اختیار کی گئی اور احادیث لکھنے پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ پابندی دورِ ابوبکر میں شروع ہوئی اور خلیفہ عمر بن خطاب نے اسے مزید سخت کر دیا۔ تقریباً ایک صدی تک حدیث لکھنے کی اجازت نہ تھی۔ حتیٰ کہ منہ زبانی حدیث سنانے پر بھی کئی صحابہ کو بازپُرس کا سامنا کرنا پڑا۔

اہلِ سنت کے ہاں اس پابندی کی توجیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس سے قرآن و حدیث کے اختلاط یا غیر معتبر روایات کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ لیکن شیعہ محققین کے نزدیک یہ پابندی دراصل اہلِ بیتؑ خصوصاً حضرت علیؑ کے فضائل کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تھی۔

اہلِ سنت میں پہلی صدی: صرف زبانی روایت

اس سرکاری پابندی کی وجہ سے پہلی صدی اور دوسری صدی کے ابتدائی دور میں اہلِ سنت کے ہاں حدیث زیادہ تر زبانی طور پر منتقل ہوتی رہی۔

دو بڑی رکاوٹیں سامنے تھیں:

1. خلیفہ دوم کی جانب سے احادیث لکھنے کی ممانعت

2. روایت کے لیے حافظے اور زبانی نقل پر انحصار

اس دوران محدثین اپنے سنے ہوئے احادیث یاد کر کے آگے بیان کرتے تھے۔ اگرچہ یہ خدشہ بڑھ رہا تھا کہ روایات ضائع ہو جائیں گی، مگر سیاسی ماحول باقاعدہ تدوین کی اجازت نہیں دیتا تھا۔

عمر بن عبدالعزیز کے دور میں پابندی کا خاتمہ

دوسری صدی ہجری کے اوائل میں عمر بن عبدالعزیز نے حدیث لکھنے پر لگی پابندی ختم کر دی اور باقاعدہ احادیث جمع کرنے کا حکم دیا۔

سب سے پہلے ابنِ شہاب زہری نے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے احادیث تحریر کیں۔ پھر مالک بن انس، سفیان ثوری، ابنِ جریج اور دیگر بڑے محدثین نے تدوینِ حدیث کا باقاعدہ سلسلہ شروع کیا۔

اگرچہ اس کے باوجود دوسری صدی کے آخر تک بہت سے اہلِ سنت علماء حدیث لکھنے کے معاملے میں محتاط تھے، مگر رفتہ رفتہ تدوین کا عمل مضبوط ہوتا گیا۔

شیعہ کا الگ راستہ: آغاز سے کتابت کا تسلسل

شیعہ مکتب میں رسول اللہ (ص) اور ائمہ اطہارؑ کی حدیث کو شرعی حجت سمجھا جاتا تھا، اسی وجہ سے ابتدا ہی سے روایات کو لکھنے کا عمل جاری رہا۔

اگرچہ پہلی صدی میں سیاسی دباؤ کے باعث کچھ احادیث ضائع ہوئیں، لیکن حالات بہتر ہونے کے بعد امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کے دور میں کتابتِ حدیث اپنے عروج پر پہنچ گئی۔

اس زمانے میں شاگردوں نے سینکڑوں کتابیں لکھیں جو تین بنیادی شکلوں میں تھیں:

رسائل: فقہی و اعتقادی سوالات کے جوابات

اصول: وہ کتابیں جن کے مصنفین نے حدیث کو براہِ راست یا کم واسطوں سے امام سے سنا ہو

مصنّفات: حدیث کے ساتھ توضیحات اور فقہی نکات پر مشتمل کتب

اس دور میں تقریباً چار سو اصول حدیث لکھے گئے جو بعد میں الکافی، من لایحضره الفقیه، تہذیب الاحکام اور الاستبصار جیسی بنیادی شیعہ حدیثی کتابوں کی بنیاد بنے۔

خلاصہ

عہدِ رسالت: دونوں گروہوں میں کتابت حدیث موجود تھی۔

وصالِ رسولؐ کے بعد ایک صدی تک: اہلِ سنت میں حکومتی پابندی کے باعث حدیث تقریباً صرف زبانی طور پر منتقل ہوتی رہی۔

شیعہ میں: ابتدا سے ہی کتابت کا سلسلہ جاری رہا اور دورِ باقرین و صادقینؑ میں یہ تحریک اپنے عروج پر پہنچی۔

اہلِ سنت میں: عمر بن عبدالعزیز کے دور سے باقاعدہ کتابت شروع ہوئی اور دوسری و تیسری صدی میں مضبوط بنیادوں پر قائم ہوئی۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha