حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علّامہ طباطبائیؒ بیان کرتے ہیں: ایک زمانے میں، جب میں نجف اشرف میں ایک کرائے کے مکان میں مقیم تھا اور ابھی درس و تدریس کے حلقوں میں شرکت شروع نہیں کی تھی، ایک دن دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو ایک جلیل القدر عالم اندر تشریف لائے۔ اُن کا چہرہ نورانی تھا۔ کچھ گفتگو کے بعد انہوں نے هاتف اصفہانی کے ایک شعر کا حصہ پڑھا:
“اے وہ ذات جس پر میرا دل و جان قربان ہوں،
اے وہ جس کی راہ میں یہی سب کچھ نثار ہے”
پھر فرمایا: “جو شخص علم کے حصول کے لیے نجف آتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف درس تک محدود نہ رہے بلکہ اپنے نفس کی تہذیب اور روح کی تکمیل پر بھی توجہ دے۔”
یہ عظیم شخصیت حاج میرزا علی آقا قاضیؒ تھے۔ اسی پہلی ملاقات نے میری زندگی کا رخ بدل دیا۔
کچھ عرصے بعد میرے لیے واجب الوجود اور ممکن الوجود کے باہمی تعلق کا مسئلہ الجھن بن گیا۔ اگرچہ میں جانتا تھا کہ واجب الوجود واجب ہے اور ممکن الوجود ممکن، مگر ان دونوں کے تعلق کی حقیقت سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ یہاں تک کہ جب میں نے حافظ کی ایک غزل پڑھی تو حقیقت مجھ پر منکشف ہوگئی اور مجھے سمجھ آ گیا کہ ممکن الوجود سراسر محتاج اور خدا پر کامل طور پر منحصر ہے، اور بندوں سے خدا کی محبت اس کی رحمت کا تقاضا ہے۔
ایک دن مرحوم استاد قاضیؒ میرے قریب سے گزرے، میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: “بیٹا! اگر دنیا چاہتے ہو تو نمازِ شب پڑھو؛ اور اگر آخرت چاہتے ہو تو بھی نمازِ شب پڑھو۔”
یہ جملہ میرے دل میں اس طرح اتر گیا کہ عمر کے آخری لمحے تک میں اُن کی معنوی راہ اور صحبت سے جدا نہ ہو سکا، اور ہمیشہ اُن سے رابطہ اور مکاتبت جاری رہی۔
ماخوذ از کتاب: «پاسدارانِ حریمِ عشق» تالیف: آیت اللہ سعادت پرورؒ









آپ کا تبصرہ