حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کے رکن آیت اللہ نجم الدین مروجی طبسی نے مہدویت کے تصور کو درپیش سنگین خطرات سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج مہدویت نہ صرف غیر معمولی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے بلکہ تحریف اور مصادرے کے شدید خطرے میں بھی ہے، اور اگر اس موضوع کی علمی اور سنجیدہ توضیح سے غفلت برتی گئی تو اس کے ناقابلِ تلافی نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
آیت اللہ مروجی طبسی نے مسجد جمکران میں یومِ تحقیق کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امام زمانہ (عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف) کا مقام اور حقیقتِ مہدویت شیعہ عقائد کی اساس ہے، مگر آج دشمن قوتیں منظم منصوبہ بندی اور مضبوط تشکیلات کے ساتھ اس حق کو کمزور کرنے کے درپے ہیں۔
انہوں نے مرحوم میر حامد حسین لکھنوی کے اقوال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تقریباً 180 برس قبل ہی اکابر علما نے خبردار کر دیا تھا کہ باطل قوتیں باہمی ہم آہنگی کے ساتھ حق کے خلاف سرگرم ہوں گی، اور آج یہ حقیقت پوری طرح نمایاں ہو چکی ہے کہ مختلف گمراہ فکر حلقے اور مخالفین منظم اداروں اور فورمز کے ذریعے حق کی تردید میں مصروف ہیں۔
آیت اللہ مروجی طبسی نے کہا کہ گزشتہ علما نے بڑی مشقتوں کے بعد جو علمی سرمایہ امت کے لیے چھوڑا، وہ آج بآسانی ہمارے اختیار میں ہے، لیکن اگر اس نعمت کی قدر نہ کی گئی تو قیمتی عمر کے ضیاع اور دینی شناخت کے کمزور پڑنے کا اندیشہ ہے۔ دنیا ایک عارضی گزرگاہ ہے اور اس میں راہ حق اور اہلِ بیت علیہم السلام کے نام کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے فکری یلغار کے مقابلے میں بیداری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مهدویت دوست اور دشمن دونوں کی توجہ کا مرکز ہے؛ دشمن اس لیے کہ وہ جانتے ہیں ایک منجی آئے گا جو ظلم کا خاتمہ کرے گا، اور اہلِ ایمان اس لیے کہ وہ وعدۂ الٰہی کی تکمیل کے منتظر ہیں۔
استادِ حوزہ علمیہ قم نے اپنے افریقہ اور یورپ کے تبلیغی و علمی سفر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے خود دیکھا ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں اہلِ فکر، اہلِ مطالعہ اور حق کے متلاشی افراد مہدویت کے موضوع کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور اس پر گہری توجہ دے رہے ہیں۔
انہوں نے سوڈان کے سفر کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً 300 افراد پر مشتمل ایک نشست میں، جس میں عیسائی، سلفی اور اہلِ سنت سمیت مختلف فکری طبقات شریک تھے، گھنٹوں سوالات اور شبہات زیرِ بحث آئے، اور آخرکار مہدویت کے متعلق درست توضیح و تشریح کو شرکا نے خوش دلی سے قبول کیا۔
آیت اللہ مروجی طبسی نے مزید بتایا کہ گزشتہ ہفتے مسکو میں بھی ایسے طلبہ، جو پہلے قم میں تعلیم حاصل کر چکے تھے، ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کر کے مہدویت کے دروس میں شریک ہوئے اور اس موضوع پر تخصصی کتابوں کے تراجم اور مواد کا مطالبہ کیا، جو اس امر کی علامت ہے کہ مہدویت کی طرف عالمی سطح پر توجہ بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے ماضی کے علما کی مشکلات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ایک دور تھا جب علامہ امینی علیہ الرحمہ جیسے بزرگوں کو اپنی کتابوں کی اشاعت کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، جبکہ آج وسائل میسر ہیں، اس لیے اس تاریخی موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
آخر میں رکنِ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم نے زور دے کر کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ تمام دستیاب صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر معارفِ مهدوی کی درست اور بہترین تبیین و تشریح کی جائے، کیونکہ اگر آج کوتاہی ہوئی تو کل بہت دیر ہو چکی ہوگی۔









آپ کا تبصرہ