حوزہ نیوز کی رپورٹ کے مطابقعیسائی کارڈینال پروفیسر میشل ڈوبسٹ نے حضرت عیسیٰ اور امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی سیرت میں بچوں کی اخلاقی تربیت کے زیر عنوان علمی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ درحقیقت میں فرانس جیسے سیکولر دنیا میں رہتاہوں اور میں نے اپنی عمر کا کافی حصہ نوجوانوں کی صحیح تربیت میں گذاراہے۔
انہوں نے اس بات کا ذکرکرتے ہوئے کہ زیارت دینی اور عبادی پہلو کی حامل ہے کہا کہ اپنے رب سے ملاقات زندگی کا اہم ہدف و مقصد ہے اورحقیقی سکون وہی ہے جو انسان کو پروردگار کی قربت سے حاصل ہوتا ہے ۔
پروفیسر میشل کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ مختلف مذاہب اور نظریات کی بنیاد پر خدا سے قریب ہونے کا طریقہ الگ الگ ہو، انجیل میں زیادہ بچے پیدا کرنے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اور صاحب اولاد ہونا ہی وہ واحد وسیلہ اور ذریعہ ہے جس سے خدا اور انسان کے مابین رابطہ جاری رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تربیت کا تعلق اس بات سے ہے کہ ہم اختیاری طور پر خدا کے ساتھ رابطے میں رہيں اور یہ ارتباط ایک خاص قانون کانتیجہ ہوتا ہے اور تربیت بھی اسی قانون کا ایک جزہے۔
انہوں نے انجیل میں ذکر کئے جانے والے اللہ کے دس فرامین کو اسی قانون کا ایک نمونہ قراردیتے ہوئے کہا کہ انسان کے بچپن کو انجیل میں بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے کیونکہ یہ بچہ ہی ہے جو ممکن اور ناممکن کو فراہم کرتا ہے؛ انجیل میں ہم مفاہیم کو سمجھنے کے لئے مختلف علامتوں اورنمونوں سے استفادہ کرتے ہیں اور خود بچے کی شخصیت پر توجہ جیسے عمل کا انجیل میں مشاہدہ نہیں ہوتا ۔
فرانسیسی عیسائی کارڈینال نے مزید کہا کہ ہم اخلاقی عبرتوں اور نتائج کو انجیل کے متن و مطالب سے نہیں لیتے بلکہ انجیل سے مفاہیم لیتے ہیں اور اس کام کے لئے اس کتاب میں دیئے گئے مختلف نمونوں سے استفادہ کرتے ہيں ۔
ان کا کہنا تھا کہ ماں باپ سے محبت کرنا بہت اچھی اور اہم بات ہے لیکن اس بھی زیادہ اہم خدا سے محبت ہے ۔ چرچ جس کی ہزار سالہ تاریخ ہے اس کا سب سے اہم مسئلہ اور محور تربیت ہے ۔ ان کلیساؤں اور چرچوں میں تربیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان تربیت کے میدان میں کامل ترین اور اس کی آخری حد تک پہنچ سکے۔
عیسائی کارڈینال ڈوبسٹ نے کہا کہ تربیت کا مطلب یعنی انسان بچپن کی حالت سے نکل کر تعلیم اور معارف سیکھے، اس حوالے سے استاد کا کردار یہ ہے کہ انسان کو بچپن کے عالم سے نکال کر دینی علوم اور تربیت کی تعلیم دے۔
تربیت یعنی انسان کا دوسروں سے تعلق قائم کرنا تاکہ وہ انسان کامل میں تبدیل ہو سکے اور یہ چیز اس تہذیب و ثقافت سے مربوط ہے جس میں وہ زندگی بسر کرتا ہے
کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے فلسفہ دین کے محقق اور استاد حجت الاسلام والمسلمین عبدالحسین خسروپناہ نے بھی کہا کہ اسلام میں تربیت کا مطلب چھپی ہوئی صلاحیتوں کو نکھارنا ہے اور اخلاق کا مطلب نیکیاں اور اچھائیاں ہيں، اس لئے اسلام میں اخلاقی تربیت کا مطلب یعنی ایسی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو نکھارنا جو بافضیلت ہیں۔
حجت الاسلام عبد الحسین کا کہنا تھا کہ تعلیم و تربیت کا آغاز بچپن سے ہی ہوجاتا ہے اور یہ چیز فقط نوجوانی یا جوانی سے مخصوص نہیں ہے اور بچوں کی اخلاقی تربیت مؤثر ہونے کی وجہ سے یہ چیز زیادہ حساس ہے بچوں اور نوجوانوں کے دل خالی زمین کی طرح ہیں اس لئے آسانی سے تعلیم و تربیت اور معارف کو ان کے دل و دماغ میں بٹھایا جاسکتا ہے۔