۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
سینیٹ

حوزہ/ اس بات کی جانب جہاں پوری دنیا متوجہ ہے کہ امریکی صدر اور اسکے حواری ذہنی مریض ہیں، اب امریکی سینٹ بھی اس جانب متوجہ ہوا ہے.

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی سماعت کا سینیٹ میں باقاعدہ آغاز ہوگیا، جس میں سب سے پہلے اس کیس کو آگے بڑھانے کیلئے قوائد و ضوابط طے کرنے کی خاطر دونوں جماعتوں کے درمیان کھل کر بحث ہوئی۔

یہ امریکی تاریخ میں تیسرا واقعہ ہے جب امریکی سینیٹر اپنے ووٹ کے ذریعے اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ آیا ٹرمپ کو اسکے عہدے سے برطرف کیا جانا چاہیے یا نہیں۔
ٹرمپ کے مواخذے کی سارے دن کی پہلی سماعت کے دوران ڈیموکریٹک ارکان نے کوشش کی کہ اس کیس کا طریقہ کار واضح کرتے ہوئے گواہان کو شہادتوں کیلئے طلب کیا جائے۔ تاہم، وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما چک شومر کا کہنا تھا کہ اگر لوگ اس بات پر یقین کرنے لگیں کہ غیر ملکی حقیقی طور پر ہمارے صدر، سینیٹرز یا حکومت کو منتخب کر سکتے ہیں اور ہمارے انتخابات میں مداخلت کرتے ہوئے اس کے نتائج کا تعین کر سکتے ہیں تو ہماری جمہوریت کی بساط ہی الٹ جائے گی اور انتخابات میں لوگوں کا اعتماد ختم ہو کر رہ جائے گا۔

تاہم، سینیٹ میں اکثریت رکھنے والے رپبلکن سینیٹرز اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے مواخذے کیلئے وہی طریقہ استعمال کیا جانا چاہیے جو سابق صدر بل کلنٹن کیلئے استعمال کیا گیا تھا۔ رپبلکن سینیٹر مٹ رومنی کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن سمیت دیگر گواہان کی بات سننا استغاثہ اور مدعا علیہ دونوں کیلئے اہم ہو گا۔ تاہم، اس فیصلے اور اس کیلئے ووٹنگ کا صحیح وقت ابتدائی دلائل پیش کیے جانے کے بعد ہی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ سابق صدر بل کلنٹن کے مواخذے کیلئے یہی طریقہ استعمال کیا گیا تھا۔

ٹرمپ نے ڈیووس میں کہا کہ جان بولٹن جیسے حالیہ اور سابق سرکاری اہلکاروں کو شہادتوں کیلئے طلب کرنے سے قومی سیکورٹی کیلئے خدشات جنم لیں گے۔ ادھر، سینیٹ میں اس بارے میں 13 گھنٹے تک جاری شدید بحث کے بعد رپبلکن سینیٹرز نے جان بولٹن اور وائٹ ہاؤس کے تین اہلکاروں کو شہادت دینے کیلئے سمن جاری کرنے کا اقدام مسترد کر دیا ہے۔

ٹرمپ کے اہم حامی اور سینیٹ میں رپبلکن پارٹی کے اکثریتی رہنما مچ میکانل سوال اٹھایا کہ کیا سینیٹ اب بھی ہمارا بنیادی مقصد پورا کر سکتی ہے؟ کیا ہم اب بھی دونوں فریقین کے اختلاف سے بھرپور دن سے پہلے انصاف، برابری اور تاریخی مثالوں کی پاسداری کر سکتے ہیں؟ اس کا کہنا تھا کہ آج کی ووٹنگ میں اس بارے میں کچھ جواب مل پائیں گے۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی لا سکول کے پال برمن شیف کہتے ہیں کہ سینیٹ میں رپبلکن پارٹی کو اکثریت حاصل ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ کو سیاسی طور پر فائدہ حاصل رہے گا۔ تاہم، اگر گواہان کو طلب کرنے سے انکار کیا گیا تو اس کے اثرات شدید ہوں گے۔ اسکے مطابق، یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ سینیٹ ایسا ٹرائل کرے جو حقیقی ہو اور سینیٹرز حقیقی طور پر قانون دان کا کردار ادا کریں اور ایک دوسرے سے اختلاف کرنے سے اجتناب کریں۔ پال برمن شیف کا کہنا ہے کہ پیش کیے جانے والے دلائل کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے اور گواہان کی بات بھی سنجیدگی سے سنی جانی چاہیے۔ تاہم، ان کے مطابق، ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو اور اگر سینیٹ اپنی ذمہ داری کو سنجیدگی سے نہیں لیتی تو ہماری آئینی جمہوریت کیلئے اس کے اثرات شدید ہوں گے۔

ایوانِ نمائندگان کے مقرر کردہ مواخذے کے منیجرز کے پاس سنیٹ میں صدر ٹرمپ کے خلاف دلائل دینے کیلئے تین دن کا وقت میسر ہے جس کے بعد ہفتے سے وائٹ ہاؤس کے وکلا ٹرمپ کے دفاع میں کیس پیش کریں گے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .