۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
مولانا تقی عباس رضوی

حوزہ/جعفری مذہب اور جوانان مذہب جعفری کو بچانے کے لئے ہمیں چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام کی علمی، فکری اور ثقافتی خدمات اور ان کے پیش کردہ دستور حیات پر عمل پیرا ہونا ہوگا تب کہیں جا کر ہم اور ہمارا معاشرہ جعفری کہلانے کے قابل ہوگا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کے معروف عالم دین، مشہور محقق و مؤلف اور اہل بیت (ع)فاؤنڈیشن کے نائب صدر حجت الاسلام مولانا تقی عباس رضوی نے پندرہ شوال صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کی مناسبت پر حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ:
موجودہ دور میں غالیوں، نصیریوں اور اخباریوں کے بڑھتے ہوئے قدم کو روکنے اور ان کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی سیرت و حکمت عملی پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

حجت الاسلام مولانا تقی عباس رضوی نے مزید کہا: یوں تو باب فضائل میں افراط کرنے والے غالیوں کی تاریخ کا تسلسل مولائے کائنات کے دور سے جاملتا ہے کہ جہاں غالیوں کو امیرالمؤمنین علیہ السلام نے قتل کرنے اور آگ میں جلانے کا حکم بھی دیا ہے اور باقی ائمہ اطہار علیہم السلام نے بھی انہیں اسلام سے خارج جانا ہے مگر صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام  کے تقریباً 34 سالہ دور امامت میں غالیوں کی فعالیتوں میں بھی شدت آگئی تھی اور وہ اسلام کا لبادہ اوڑھے اپنے باطل عقائد و افکار کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہوئے امیرالمؤمنینؑ اور ان کی ذریت اطہارؑ کی طرف ربوبیت اور نبوت کی نسبت دیتے تھے جس کی وجہ سے آپ نے اس سوچ کے خلاف نہایت سخت اقدامات انجام دیئے یہاں تک کہ غالیوں کو کافر اور مشرک قرار دے کر ان سے بیزاری کا اعلان بھی کردیا تھا. آج! پھر سے یہ لوگ شیعیت کا لبادہ اوڑھے شعراء و مقررین، ماتمی اور عزاداروں کی شکل میں اس مذہب کی بیخ کنی کرنے کی سعی ناسعید کر رہے ہیں جسے صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے 34 سال اپنے خون جگر سے سینچا ہے اور اس کی حفاظت و فروغ میں قدم بہ قدم بنی امیہ و بنی عباس اور دیگر دشمن عناصر کے ڈھائے ظلم و ستم کو بھی برداشت کئے ہیں.... اس لئے ہم تمام عاشقان اہلبیت علیهم السلام خاص کر مذہب جعفری کے تمام پیروکاروں کا یہ فرض ہے کہ ایسے غالی، نصیری، اخباری، ملنگی عناصر اگر ہماری بزم میں موجود ہیں جن کی رفتا و گفتار اور اعمال بد سے جعفری مذہب کے عقائد و نظریات اور اس کی آئیڈیالوجی پر حرف آتا ہے تو اسے فوراً بے نقاب کرکے اپنی پاکیزہ بزم سے باہر نکالا جائے اور ان بیزاری کا اعلان کیا جائے۔

ہندوستان کی معروف علمی، سماجی شخصیت حجت الاسلام تقی عباس رضوی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ: اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد و آل محمد علیہم السلام کی سیرت طیبہ کا ذکر دنیا و آخرت دونوں کی سعادت کا ذریعہ ہے اور ان حضرات کے ذکر سے دلوں کی کایا پلٹ جاتی ہے، اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ آپ حضرات کی سیرت ایک ایسا سدا بہار موضوع ہے جس کے پرانے ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں اور نہ ہی یہ ایسا عنوان ہے  جس کے کمزور پڑنے کا کوئی امکان ہو سکتا ہے مگر! موجودہ دور میں مذہب جعفری کے دیرینہ عالمی دشمنوں کے چیلنجوں سے نمٹنے اور ان کے مقابلے کے لئے ہمیں ان کی سیرت کے زبانی چرچے سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے۔

اہل بیت(ع)فاؤنڈیشن کے نائب صدر مولانا تقی عباس رضوی نے حوزہ نیوز ایجنسی کے خصوصی نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ: موجودہ دور میں کفر و الحاد، شرک، و بدعت اور نت نئے شک و شبہات اور دیگر فکری یلغار سے قوم و ملت، جعفری مذہب اور جوانان مذہب جعفری کو بچانے کے لئے ہمیں چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام کی علمی، فکری اور ثقافتی خدمات اور ان کے پیش کردہ دستور حیات پر عمل پیرا ہونا ہوگا تب کہیں جا کر ہم اور ہمارا معاشرہ جعفری کہلانے کے قابل ہوگا، ہماری قوم کو جہاں سلمان، مقداد بوذر و قنبر اور مالک اشتر جیسے جليل القدر افراد کی ضرورت ہے وہیں ہمیں اس شورشی دور میں  حُمران بن اَعیَن، اَبان بن تَغلِب، هِشام بن سالم،مؤمن الطّاق اور  زُراره جیسے مکتب جعفری میں پروان چڑھنے والے شاگردوں کی ضرورت ہے جو ویران دلوں میں شورش محشر بپا کرکے انہیں روشن اور ایک تابناک مستقبل کی نوید سنا سکیں، عصر حاضر میں امت مسلمہ کے بدلتے اور بگڑتے ماحول بالخصوص مذہب تشیع کی بے چینی و بے قراری، اضطرابی اور التہابی کیفیت کا سبب ان کی روز مرہ زندگی سے سیرت اہل بیت(علیہم السلام)کی عملی روح کا نکل جانا ہے۔

مولانا موصوف نے اپنی گفتگو کے آخری حصے ميں تمام عاشقان اہلبیت علیهم السلام خاص کر حوزہ نیوز کے قارئین کرام کی خدمت میں چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر تسلیت عرض کرتے ہوئے اپنی گفتگو کا اختتام اس بات پر کیا کہ اگر عالم اسلام خاص کر اہل تشیع اگر اهل بیت(ع) کی سیرتوں کا اتباع کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہوجائے تو اس کے سوز غم؛ ساز و طرب میں تبدیل ہوجائیں، اس کی ہر مشکل آسان اور اس کے سارے وسواس دور ہوجائیں اس لئے کہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کی سیرت طیبہ تاریکیوں میں نور مبین اور سراج منیر کی حیثیت رکھتی ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .