۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
سید جعفر حسین

حوزہ/حرمین شرفین تمام مسلمانوں کا مقدس مقام ہے، حکومت سعودی عربیہ کی جاگیر نہیں، یہ اُمّت مسلمہ کی وراثت ہے، اسکے بارے میں فیصلے کا حق بھی اُمّت کا ہی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،سید جعفر حسین،ایڈیٹر روزنامہ صدائے حسینی حیدرآباد دکن نے حج ۲۰۲۰ کو سعودی حکمرانوں کی تاناشاہی بتاتے ہوئے مسلمانوں کی بےحسی پر افسوس کا اظہار کیا۔

موصوف نے کہا کہ حج 2020 شروع ہو چکا ہے، یوم عرفہ جو حج کا سب سے اہم رُکن مانا جاتا ہے جس کے بنا حج مُکمل نہیں ہوتا، یہاں پر چند لمحے کےلئے ہی، چاہے بیمار ہی کیوں نہ ہو اسکو اعمال کرنا ضروری ہے۔ خاص طور پر اعمال عرفہ جو امام حسین علیہ السلام سے منسوب دعا ہے دنیا کے مختف ممالک میں اور کربلا معلا میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ ان اعمل عرفہ میں شریک ہوتے تھے مگر اس سال یہ وبا کے سبب شاید کم لوگ شریک ہوں۔

مزید اپنے بیان میں کہا کہ جس طرح اس سال حج بیت اللہ کو روک دیا گیا، صرف ایک ہزار لوگوں کو حج کی اجازت ملی ہے، حکومت سعودی عربیہ نے مسلمانوں سے بنا کسی مشورے کے یہ اعلان کیا ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دنیا بھر کے مختلف ممالک سے اہم شخصیات کو اس حج میں شامل کیا جاتا، ان کے لئے خاص فلائٹ کا انتظام کیا جاتا، کیونکہ اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں جو خصوصی طیاروں کے ذریعے بھی ان اعمال کی بجوری کرسکتے تھے۔

مسٹر جعفر نے کہا کہ حرمین شرفین تمام مسلمانوں کا مقدس مقام ہے، حکومت سعودی عربیہ کی جاگیر نہیں، یہ اُمّت مسلمہ کی وراثت ہے، اسکے بارے میں فیصلے کا حق بھی اُمّت کا ہی ہے۔ جس طرح یونائیٹڈ نیشن دنیا بھر کے ممالک کی عالمی تنظیم ہے، اسی طرح دنیا کے مسلمانوں کی ایک عالمی تنظیم کی ضرورت ہے، جو مسلئہ حج و عمرہ پر نظر رکھے، اور تمام مسلانوں کے متفقہ فیصلے کے تحت اعلان کرے۔

روزنامہ صدائے حسینی کے ایڈیٹر نے کہا کہ سعودی عرب کو ایسے فیصلوں سے گریز کرنا چاہئے جو تمام مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاے، سعودی عرب جارجیت کے ہوتے ہوئے مسلمانوں کو حقیقی حج کبھی بھی نصیب نہیں ہوگا، کیونکہ ایک میسیج بھی حاصل ہوا ہے کہ سعودی جب چاہئے حج بند کر سکتے ہیں۔

آخر میں کہا کہ اس طرح کی روش سے حکومت سعودی حکومت، یہ بتانا چاہتی ہے کہ اب حج کے فیصلے صرف وہی کرسکتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کے سعودی حکومت پشیمانی کے ساتھ مسلمانان عالم سے گزارش کرتے ہوئے آپس میں مشورہ کرکے فیصلہ کرے، مگر افسوس کے ایسا نہیں ہو رہا ہے۔”

تبصرہ ارسال

You are replying to: .