حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال بابری مسجد ملکیت اراضی مقدمہ میں فیصلہ ہندو فریق کے حق میں آنے کے بعد اس طرح کے تنازعات کو ہوا دینے والوں کے حوصلے بلند ہیں اور متھرا - کاشی تنازعہ سے ملک کو جھلسانے کی تیاری چل رہی ہے۔ اسی ضمن میں اب متھرا کی ایک عدالت میں سول مقدمہ دائر کر کے کرشن جنم بھومی کے لئے 13.37 ایکڑ زمین پر قبضہ اور شاہی عید گاہ مسجد کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ مقدمہ ایودھیا کے رام للا براجمان کی طرز پر شری کرشن براجمان کی طرف سے وکیل رنجنا اگنی ہوتری نے (نیکسٹ فرینڈ) سرپرست کے طور پر دائر کیا ہے۔ عرضی میں کرشن کے چھ بھگوں کے نام بھی مدعی کے طور پر شامل ہیں اور یہ مقدمہ ’بھگوان شری کرشن براجمان، واقعہ کٹرا کیشو دیو کھیوٹ، متھرا‘ کے نام پر دائر کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ پارلیمنٹ سے ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991‘ کی منظوری کے بعد بابری مسجد کے علاوہ کسی بھی دوسرے مذہبی مقام کے حوالہ سے مالکانہ حقوق کا مقدمہ دائر نہیں کیا جا سکتا۔ اس قانون کے مطابق بابری مسجد-رام جنم بھومی تنازعہ میں مالکانہ حقوق کے مقدمہ کو استثنیٰ رکھا گیا تھا جبکہ متھرا اور کاشی سمیت اس طرح کے تمام تنازعات پر مقدمہ بازی پر روک لگا دی گئی تھی۔ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کے بعد سے جو مذہبی مقامات جس فرقہ سے وابستہ ہیں وہ آج اور مستقبل میں بھی اسی فرقہ کے رہیں گے۔
گزشتہ سال 9 نومبر 2019 کو ایودھیا پر فیصلہ سناتے ہوئے بھی سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی بنچ نے کاشی، متھرا سمیت ایسے تمام معاملات میں نئی مقدمہ بازی کے لئے راستہ بند کر دیا تھا۔ اس معاملہ میں وکیل وشنو شنکر جین کے توسط سے ہندو فریق نے پہلے ہی سپریم کورٹ میں قانون کی موزونیت کو چیلنج کیا تھا جس پر عدالت عظمی نے کہا تھا کہ تاریخی غلطیوں کی اصلاح عدالتیں نہیں کر سکتیں۔