۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
سلمان عابدی

حوزہ/ان کی وصیت کو پڑھ کر میرے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ جانے والا مرا ہے یا قوم مردہ ہے ؟ زندگی میں ناقدری اور موت کے بعد فرقت کا افسوس کرنا اور مرنے والے کو خراج تحسین پیش کرنا مردہ نہیں تو کم سے کم کمزور قوموں کی علامت ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،بڑی شخصیتیں جب اس دنیا سے جاتی ہیں تو دکھ اور افسوس کے لئے شخصی تعلق لازم نہیں ہوتا ان کا غم عمومی ہوتا ہے اسی لئے مولانا کلب صادق کی رحلت پر برصغیر کے ہر شخص نے اظہار افسوس کیا ہر آنکھ ڈبڈبائی سب کو ان کے بچھڑنے کا افسوس ہوا اور سب نے بالعموم ان کے قومی علمی اور سماجی خدمات کا اعتراف کیا ہر گروہ ہر ادارہ اور ہر طبقہ فکر  نے انکی موت پر خامہ فرسائی کی میں نے سب کی تعزیتی تحریریں پڑھیں کسی نے لکھا 
اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی
کسی نے لکھا 
وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
کسی نے لکھا 
موت اسکی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس 
کسی نے لکھا کاش ہماری عمر ان کو لگ جاتی 
کسی نے اپنی تحریر میں انکے مزاح کو اجاگر کیا تو کسی نے ان کی بے تکلفی کو سراہا - 
کسی نے ان کے لباس کی سادگی اور انکی خوراک کی کمیت و کیفیت کو بیان کیا تو کسی نے انکی موت کو علمی حلقوں کے لئے ایک عظیم اور ناقابل تلافی نقصان گردانا -
علمبردار اتحاد ' مسیحائے وقت ' زمانہ شناس مفکر -شیعوں کا سرسید ' خاندان اجتہاد کے علمی و روحانی کارناموں کا امین و پاسبان ' علم کا عظیم مینارہ 'حکیم امت ' نایاب گوہر ' ملت کا سرمایہ ' دانشمند مصلح و ریفارمر ' چمکتا ہوا سورج ' سچا خدمت گذار ' برصغیر کے افق کی روشنی ' ملت کی تمناؤں کا مرکز ' سفینہ امت کا ناخدا ' اور زمانہ برسوں روئے گا ووووووو غرض جس نے جو بھی لکھا وہ حق بجانب تھا اور سب کے اعترافات ان کے قد کے نیچے اور انکی رحلت کے بعد تھے۔


کاش یہ تمام تعزیتی تحریریں ان کے جیتے جی ہی لکھ کر انہیں دکھادی جاتیں تو شاید وہ خوشی خوشی اس دنیا سے جاتے اور انہیں وصیت میں یہ لکھنا نہ پڑتا کہ

اگر ایسا خطیب دستیاب نہ ہو تو میرے ایصال ثواب کی مجلس میں میر انیس کے مرثیہ پر اکتفا کی جائے -
ظاہر ہے انہوں نے گھر سے لیکر کشمیر سے کنیاکماری تک دیکھ کر ہی یہ وصیت کی ہوگی میں ان کی وصیت کی اس شق پر تنقید تو نہیں کروں گا کیونکہ ابھی کفن میلا اور قبر کی مٹی خشک نہیں ہوئی ہے لیکن ان کی اس وصیت کو پڑھ کر میرے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ جانے والا مرا ہے یا قوم مردہ ہے ؟
زندگی میں ناقدری اور موت کے بعد فرقت کا افسوس کرنا اور مرنے والے کو خراج تحسین پیش کرنا مردہ نہیں تو کم سے کم کمزور قوموں کی علامت ہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ ایک آخری سائبان تھا جو مٹ گیا ایک آخری دیوار تھی جو گرگئ ایک آخری دریا تھا جو خشک ہوگیا اب تپتی زمین ہے اور ہماری آبلہ پائی۔
میں حوزہ ہائے علمیہ ارباب علم و خطابت اور بیت مکرم کو تعزیت پیش کرتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا کہ مایوسی کے بجائے ان کے نقش قدم پر چلنے کا عزم کریں جو وہ نہیں کرسکے ہیں وہ ہم کرنے کی کوشش کریں نمونہ ہمارے سامنے ہے اللہ ہمارا مددگار ہے 
والسلام 
سلمان عابدی 
شہر علم و ولایت 
علی پور

تبصرہ ارسال

You are replying to: .