حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں مرجع عالیقدر آیة اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کے وکیل مطلق،شہرِ ممبئی کے امام جمعہ،مدیر جامعة الامام امیر المؤمنین نجفی ہاؤس حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید احمد علی عابدی نے حکیم امت مولانا ڈاکٹر کلب صادق طاب ثرہ کی رحلت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے، مرحوم کے لواحقین اور ملت اسلامیہ کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش کی۔
تعزیت نامہ کا مکمل بیان اسطرح ہے؛
باسمہ تعالی
انا للہ و انا الیہ راجعون رضاً بقضائہ
سلام علیکم
حکیم امت، مصلح قوم، دردمند ملت، دلسوز قوم جناب ڈاکٹر مولانا کلب صادق کا انتقال و رحلت پوری قوم و ملت کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ ہے، ان کو حکیم امت کہا جاتا ہے اور واقعا وہ حکیم امت تھے، انہوں نے قوم کی بدحالی، تنزلی، اختلافات، فقر و فاقہ، کس مپرسی اور اس طرح کے جو مسائل تھے ان کی نبض تلاش کی، مرض کی تشخیص کی، اور صرف تشخیص تک کو کافی نہیں سمجھا، بلکہ ان سب کا علاج کیا، ان کی نظر میں بیماری کا اصل سبب قوم تھی کی جہالت، جب تک قوم سے جہالت کو دور نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک قوم سے یہ بیماریاں دور نہیں ہونگی، اور جہالت وہ سب سے بڑی بلا ہے، برائی ہے جس سے ہماری قوم لپٹی ہوئی ہے، انہوں نے صحیح تشخیص کی، اور تشخیص کے بعد انہوں نے تعلیم کے میدان میں بہٹ بڑا قدم اٹھایا، توحید المسلمین ٹرسٹ کے ذریعہ نادار طلاب کی مدد کی اور وہ طلاب جو اچھے نمبرات سے پاس ہوتے تھے ان کو آگے بڑھانے میں بہت بڑا رول ادا کیا، بہت سے لوگ توحیدالمسلمین ٹرسٹ کے ذریعے اعلیٰ درجات پہ فائز ہوئے، اس کے علاوہ انہوں نے لکھنو میں یونیٹی کالج کی بنیاد رکھی، تعلیم کے لئے انہوں نے ایک معیار قائم کیا،اور اس معیار سے انہوں نے کوئی سمجھوتا نہیں کیا، یہی ان کی بہت بڑی خصوصیت تھی، ہمارے یہاں عام طور سے ہوتا ہے کہ چیزیں بن جاتی ہیں لیکن معیار باقی نہیں رہتا اور اس کے بعد لوگ بھول جاتے ہیں کہ معیار بنانے کے لیے کن کن چیزوں کو مدنظر رکھا گیا تھا، جس کی بنا پر کام کی کوالٹی گر جاتی ہے۔ لیکن انہوں نے جیسا کہ مرحوم یونیٹی کالج کے بارے میں فرماتے تھے کہ کسی طرح کا سمجھوتا نہیں کیا بلکہ پوری طرح سے کوالٹی کا خیال رکھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یونیٹی کالج کا اچھا رزلٹ برآمد ہوا اور اچھے خاصے طلبہ عملی زندگی میں کامیاب ہوئے، اور اسی کے ساتھ ساتھ دوسرا کام یہ کیا کہ جو بچے نادار تھے اپنی فیس نہیں دے سکتے تھے یونیٹی میں ان کا الگ سیکشن شروع کیا، اسی طرح علی گڑھ میں مدینة العلوم کی بنیاد ڈالی، اور کام کیا، بہرحال انہوں نے مرض کی تشخیص کی اور اس کا علاج بھی کیا۔
اور اس علاج میں بہت حد تک کامیاب رہے، مرحوم انتہائی قابل اور پڑھے لکھے تھے، سنجیدہ تھے، فکر بہت ہی عمدہ تھی، اتحاد بین المسلمین کے ساتھ اتحاد انسانی کے قائل تھے، اور دنیا میں ان کا خاص وقار تھا، نہایت ہی سنجیدہ، نہایت بذلہ سنج، نہایت سادہ مزاج اور واقعا دل جیتنے والی شخصیت تھی، خدا ان کے درجات کو بلند سے بلندتر کرے۔ ان کے ورثاء کو صبر عطا کرے، اور انہوں نے جو کارنامہ شروع کیا تھا اسے مزید آگے بڑھائے، ان کی خواہش تھی کہ لڑکیوں کے لیے بھی ایسا ہی اسکول کھول سکیں جو ان کی زندگی میں پوری نہیں ہوسکی، خدا کرے ان کے ورثاء ان کی اس خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں، اور کالج کی مجوزہ زمین جس کا وعدہ کیا گیا تھا مل جائے تاکہ ایک نیا یونیٹی کالج لڑکیوں کے لئے بھی کھل سکے جو ان کی روح کے لیے بہترین ثواب کا کام ہوگا، خدا ان کے درجات کو بلند فرمائے۔
آئمہ معصومین علیہم السلام کے ساتھ ان کو محشور فرمائے اور تمام کو ان کے نقش قدم پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین
احمد علی عابدی