حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جناب غزال مہدی، سابق صدر جامعہ ملّیہ اسلامیہ المنائی ایسوسی ایشن، ریاض نے برصغیر کے ممتاز عالم دین ڈاکٹر کلب صادق طاب ثراہ کی رحلت پر اظہار عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ
ڈاکٹر کلبِ صادق صاحب نے زندگی بھر نہ صرف شیعہ-سُنّی اتحاد کے لئے بلکہ تمام انسانیت کے اتحاد کے لئے کوششیں کیں۔ ایسے کسی اتحاد کے لئے کوششیں کرنا اور عوام کو اِس کے لئے تیار کرنا بڑا ہی مشکل کام ہے، کیونکہ ایسی کوششوں میں کسی مُصلح قوم کو سب سے پہلے اپنے ہی گروہ کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر کلب صادق صاحب کے پاس علم تھا، وہ اپنی دُھن کے بڑے پکّے تھے، بہت جرأت مند تھے، ایک بہت ہی اہم بات یہ ہے کہ ان کے لئے مذہب کبھی ذریعہ معاش نہیں تھا، وہ اپنے گھر سے مالی طور پر مضبوط تھے۔ اسی لئے وہ کبھی بھی اُس غلط بات کو نہ تو مانتے تھے اور نہ کہتے تھے جو پیسے والوں اور اقتدار والوں کو پسند ہو، یا لوگوں کا کوئی ہجوم اُن سے کہلوانا چاہتا ہو۔ ہم ایسے واقعات سے واقف ہیں جب لاکھوں کا ہجوم ان کی تقریر سننے کے لئے بیقرار ہے اور وہاں وہ اُس ہجوم کے عام جذبات کے خلاف بات کہ رہے ہیں اور اپنی بات پر خود عمل کر کے بھی دکھا رہے ہیں۔
ڈاکٹر کلبِ صادق صاحب جس علم اور تعلیم کو پھیلانے کی بات کرتے تھے، اُس کا اصل مطلب اور مقصد کسی فرد کو چھوٹے چھوٹے مسلکی، مذہبی، علاقائی یا لسانی تنگ خانوں والی شناختوں میں بانٹنا نہیں تھا بلکہ فرد کو تعلیم کے ذریعہ کُل عالمِ انسانیت کی ایک مضبوط اکائی بنانا ہوتا تھا۔ وہ خواتین کے حقوق اور اُن کی تعلیم کے لئے بھی بہت فکر مند رہتے تھے۔ شمالی ہندوستان میں سب خواتین اور خصوصاً مسلم خواتین کے لئے انہوں نے نرسنگ کی تعلیم حاصل کرنے اور نرس کا پیشہ اپنانے پر بہت زور دیا۔ انہوں نے اس کے لئے ادارے بھی قائم کیے۔
سماجی اصلاحات کو عام کرنے کے لئے ڈاکٹر کلب صادق صاحب اس بات کے سخت خلاف رہتے تھے کہ اپنی شان و شوکت اور دوسروں کو نیچا دکھانے کے لئے روپیہ خرچ کیا جائے۔ وہ مساجد اور امام بارگاہوں میں بھی جھاڑ فانوس اور اسی طرح کی آرائش کی دوسری چیزوں کے استعمال اور ان پر روپیہ خرچ کرنے کی مخالفت کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر بچی ہوئی رقم کو اپنی اور دوسروں کی تعلیم پر خرچ کرو۔
ڈاکٹر کلب صادق صاحب قومی مسائل پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ وہ عوامی حقوق کی جد و جہد میں فکری اور عملی طور پر برابر شریک رہتے تھے۔ سنگھ پریوار کے بنائے ہوئے شہریت قانون (این آر سی) کے خلاف عوامی احتجاج جب اپنے عروج پر تھا، ہر آواز اٹھانے والے رہنما کو جیل میں بند کیا جا رہا تھا، خوف و دہشت کا ماحول تھا تب ڈاکٹر کلب صادق صاحب اپنے بُڑھاپے اور بیماری کے باوجود اسپتال سے وہیل چیئر پر سیدھے حسین آباد کلاک ٹاور (لکھنؤ) پہنچے اور وہاں دھرنے پر بیٹھی ہوئی خواتین سے اپنی یکجہتی کا اظہار کیا اور اُن سے کہا،’ آپ حق پر ہیں، آپ بے فکر رہیے، جب تک میری آخری سانس ہے میں آپ کے سرپرست کے طور پر آپ کے ساتھ رہوں گا‘۔ کسی عوامی جلسے میں اس سال جنوری میں یہ ان کا آخری دیدار تھا۔