حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں لکھے گئے مضمون میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں جنگوں کے دوران پاکستان نے بہت نقصان اٹھایا، 70 ہزار سے زائد پاکستانی جاں بحق ہوئے، امریکا نے پاکستان کو 20 ارب ڈالر امداد فراہم کی جب کہ پاکستان کی معیشت کو 150 ارب ڈالرز کا نقصان پہنچا، امریکا کے ساتھ جنگ میں شامل ہونے کے بعد پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا، امریکی کوششوں میں شامل ہونے کے بعد پاکستان کو ایک ساتھی کی حیثیت سے نشانہ بنایا گیا، امریکی ڈرون حملوں سے جنگ نہیں تو جیت پائے لیکن نفرت پیدا کردی، امریکا نے افغان سرحد پر قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے کیلئے دباؤ ڈالا، شمالی وزیرستان میں 10 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ، جس سے اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا۔ ہم نے پہلے ہی بہت بھاری قیمت ادا کردی، اب مزید برداشت نہیں کرسکتے۔
وزیر اعظم نے لکھا کہ افغان طالبان پورے ملک پر فتح حاصل نہیں کرسکتے ، ہم افغانستان کے کسی بھی فوجی قبضے کی مخالفت کرتے ہیں ، ماضی میں پاکستان نے متحارب افغان جماعتوں میں سے چناؤ کر کے غلطی کی، ہم نے غلطی سے سبق حاصل کیا ،اب وہاں ہمارا کوئی پسندیدہ گروپ نہیں، افغانستان میں کسی بھی حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں گے جسے عوام کا اعتماد حاصل ہو۔ پاکستان امریکی فوجی انخلاء کے بعد افغانستان میں مزید تنازعات سے بچنا چاہتا ہے، پاکستان افغانستان میں امن کے لئے امریکا کا شراکت دار بننے کو تیار ہے۔ ہم خانہ جنگی نہیں ، مذاکرات سے امن چاہتے ہیں، اگر مزید خانہ جنگی ہوئی تو ہم سب نالے سے نیچے چلے جائیں گے۔
وزیر اعظم نے لکھا ہے کہ امریکا اور پاکستان کے افغانستان میں مشترکہ مفادات ہیں، دونوں ممالک چاہتے ہیں افغٖانستان دہشت گردوں کی آماج گاہ نہ بنے۔ تاریخ نے ثابت کیا کہ افغانستان کو کبھی بھی باہر سے قابو نہیں کیا جاسکتا، اگر امریکا طاقت ور فوج کے ساتھ افغانستان میں 20 سال میں نہیں جیت سکا، تو ہمارے ملک سے اڈوں کے ساتھ کیسے جیتے گا، اگر امریکا کو افغانستان کیخلاف اڈے دیے توپاکستان پھردہشت گردوں کاہدف بنےگا۔ امید کرتے ہیں کہ افغان حکومت بھی مذاکرات میں زیادہ نرمی کا مظاہرہ کرے گی، خطے میں امن و ترقی کے لئے ایک نیا علاقائی معاہدہ بھی ہوسکتا ہے ،افغانستان کے پڑوسی وعدہ کریں گے کہ وہ اپنی سرزمین کو افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔