حوزہ نیوز ایجنسیl
کتاب کا مکمل نام:عوامی حکومت یا ولایت فقیہ
تالیف:سید حسن طاہری خرم آبادی
مترجم:روشن علی نجفی
ناشر:دار الثقافۃ الاسلامیہ پاکستان
سال نشر:1990
تعارف نگار: سید لیاقت علی کاظمی الموسوی
ایک قلیل عرصے کے سوا ایرانی عوام اپنے پورے عرصۂ تاریخ میں ظلم و استبداد کی چکی میں پستے رہے ہیں اور دنیا کی ذہین ترین قوم ہونے کے باوجو ظلم و استبداد و آزادی چھن جانے اور غلامی کے باعث دنیاکی ترقی یافتہ قوموں کا جزء نہ بن سکے،اور نہ بین الاقوامی میدان میں اپنی ذاتی لیاقت و استقرار کا مظاہرہ کرسکے۔ اوراس کے ساتھ یہ بھی ہوا کہ اس ظلم و استبداد کو استعمار نے اپنا زرخرید غلام بنالیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ معاشرہ کے ہر شعبۂ حیات میں خواہ وہ سیاسی ہو یا اقتصادی، ادبی ہو یا فوجی یا انتظانی، استعمار کا پورا پورا عمل دخل ہوگیا۔ اور جیسا کہ ہر استعماری معاشرہ میں صرف انھیں پروگراموں کو روبعمل لایا جاتا ہے جن سے امپیریلزم ہی کا نقع وابستہ ہو، ایران میں بھی یہی سب کچھ کیا جانے لگا اور ان تمام چیزوں کوختم کردیا گیاجن سے استعمار کو یا اس کے منافع کونقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
اوراسی لیے ایرانی عوام جہالت ونا آگاہی اور سیاسی مسائل سے بہت دور پڑے رہ گئے اور امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ روز بروز معاشرہ خفقان و اختناق کا شکار ہوتا گیا۔ اور پھر “دین و سیاست میں جدائی” کے مسئلے کو کچھ اس انداز سے پیش کیا گیا کہ لوگوں کو یقین ہوگیا کہ دین کو سیاست سے کیا واسطہ؟ اور عالم دین، سیاسی مسائل سے جتنا دور رہے، اس کی روحانیت اور اس کی معنویت اتنی ہی زیادہ ہوگی اور وہ اپنے دینی فرائض کو بہترین طریقے پر انجام دے سکے گا۔
اور پھر رفتہ رفتہ ہمارے نام ناد علماء نے بھی اس کی تبلیغ شروع کردی اور پھر سچّے و انقلابی اسلام کو، جس میں تمام شعبۂ حیات خواه وہ عبادی با سیاسی، اقتصادی ہوں یا اجتماعی سب ہی موجود تھے، بے مقصد اور شخصی اعمال و مسائلِ اخلاقی تک محدود و قید کرکے لوگوں میں اس کی تبلیغ شروع کردی اوراسلام کے اصلی و واقعی شعائر کو دیس نکالا دےکر، ان کی جگہ مجوسی اور قبل از اسلام والے شعائر رائج کیے جانے لگے مثلاً ہجری تاریخ کی جگہ شاہنشاہی تاریخ کو دے دی گئی۔
استعمار کے ستونوں کو مضبوط کرنے کے لیے فواحش و فساد کر ہر ہر جگہ وسیع پیمانے پر پھیلایا گیا جس سے نوجوان نسل تباہی کے غار میں گرپڑی۔ اور خطناک ترین نشہ آور چیزوں کی عادی ہوگئی، جگہ جگہ ہیروئن کی فروخت ہونے لگی، جنسی بے راہ روی کو عام کردیا گیا، جنسیات اور جسم پروشی کے اڈے قائم کیے گئے، سینماؤں، شراب کی دکانوں، تھیٹروں اور اسی قسم کی چیزوں کا بازار گرم کردیا گیا۔
استعمار نے ان چیزوں کو رواج دے کر ایک طرف تو مسلمانوں کو ایمان و آگاہی سے دور کردیا؛ دوسری طرف اپنی جڑوں کو مضبوط کرتے ہوئے ایران کی بین الاقرانی و خارجہ پالیسی کو منطقہ کی حفاظت اور امریکہ و اسرائیل کے منافع کی نگرانی تک محدود کر دیا اور اسلامی ممالک سے ایران کا رشتہ منقطع کرکے مخالفِ اسلام جیسے اسرائیل، حکومتوں سے مستحکم کردیا۔
یہ اور اس قسم کے سینکڑوں مسائل شہنشاہیت کی دین تھے خصوصاً رضاخان اور اس کے لڑکے محمد رضا کے چند سالہ در استبداد نے ایسے حالات پیدا کردیئے جس سے انقلاب کا راستہ ہموار ہوگیا۔
اب صرف ایک ایسے رہبر کا انتظار تھا جو عوام کی خواہشات کو پورا کر سکے اور ایک ایسے مقصد کے جستجو مین ہو جس سے تمام مصیبتوں کا علاج ہو سکے!
کہ ناگاه، ایران و اسلام کی تاریخ میں ایک طاقت ور مرد روشن ستارے کی طرح شہرِ قم کے ایک گوشہ سے چمکا۔
وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ(سورۂ یاسین۳۶ آت ۲۰)
ہاں ایک آسمانی انسان، مردِ الٰہی، مکتبِ وحی و قرآن کا تربیت یافتہ انسان، احوال زمانہ سے آگاه مفکر، قدرت آفرین و حرکت بخش بہادر، عظیم مرجع دینی، امامِ امت جس کے جسم میں روحِ خدا پھونکی گئی تھی(جس کا نام روح اللہ تھا) اٹھا اور عیسیٰ مسیحؑ کی طرح اس نے معاشرے میں ایک روح پھونکی اور انقلاب برپا کردیا۔
یوں تو ایران کی تاریخ میں اس سے پہلے بھی استبدار و استعمار کے خلاف انقلابات آچکے تھے جیسے انقلاب مشروط، حرکتِ تمباکو، یا تیل کی صنعت کو قومیانے والا انقلاب۔
اگرچہ یہ انقلابات بھی یا تو روحانیت کی قیادت میں آئے تھے یا ان میں روحانیت کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ لیکن چونکہ یہ سارے انقلابات مذہبی نہیں تھے اور یا پھر ان کا اصل مقصد اسلامی حکومت کا قیام نہ تھا اس لیے وہ ناکام ہوئے۔
لیکن اس انقلاب کا مقصد، رہبرِامّت نے بنیادی طور سے شہنشاہیت کے بوسيدة تارو پود کو بکھیر کر اسلامی حکومت کا قیام قرار دیا تھا، اسی لیے ابتدا ہی سے محمد رضا کو تمام بدبختیوں کا سرچشمہ قراردیا، اور پہلے روز سے ہی اپنی جنگ کا ہدف شاہ اور شاہی کو بنایا۔
ایرانی عوام نے بھی باربار کے تجربات سے آگاہ ہوکراسی مقصد و ہدف کو اپنے پیش نظر رکھا اور امامِ امت اور مجاہد علماء کے زیرقیادت مدرسۂ فیضیہ کے خونچکاں حادچے اور پھر ۱۵ خرداد سے انقلاب کے ابتدائی مراحل کا آغاز کردیا۔
یہ تحریک، مرحلہ بہ مرحلہ ترقی پاتی رہی، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ شاہی حکومت کے ستون اندر سے بوسیدہ سے بوسیدہ تر ہوتے رہے۔ اورجب 1356 ہجری شمسی میں ساواک کے حکم سے اخباروں نے ایک مقالہ شائع کیا جس میں مقامِ امام و مرجعیت کی توہین کی گئی تھی تو اس کے بعد یہ عالم ہوگیا تھا کہ جیسے کوئی بن پھٹ گیا ہو اور انقلاب اپنے آخری منزل میں پہنچ گیا۔
اور جب 1357 ہجری شمسی کے اواخر میں محمد رضا ایران چھوڑ کر بھاگا اور امامِ امّت ایران تشریف لائے تو شاہی نظام درہم برہم ہوگیا اور ویرانیوں کا خاتمہ ہوگیا۔
لیکن اس سے سخت مرحلہ، ویرانہائے شہنشاہی پر اسلامی حکومت کی آبادکاری تھا۔
اس مرحلے میں ایران استعمار کی منحوس سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا شکار رہا۔ اوراس چند ماہ کے اندر اندر روزانہ کسی نہ کسی غم انگیز اور خونی سازش سے دوچار ہوتا رہا، یہ مرحلہ پہلے مراحل سے زیادہ دشوار اور مشکلات سے بھرپور تھا۔
لیکن، رہبرئ امام اور ملّتِ ایران کی ہوشیاری و استقامت کے طفیل اسلامی انقلاب، ان سخت و پُر پیچ راستوں سے گزرتا ہوا اپنے اصلی ہدف کی طرف بڑھتا رہا۔
وہ اہم ترین و بنادی مسائل جن پر آئندہ نظام کا تمام تر دارومدار ہے اور اسلامی انقلاب نے تمام مشکلات و موانع کے باوجود بڑی آسانی سے اب تک جس کو سنبھالے رکھا وہ “قانونِ اساسی کی تدوین” کا مسئلہ تھا۔ جس کو ملت کی اکثریت نے قبول کرلیا اور ملک کے مستقبل کے راستے کا فیصلہ کردیا، اور تمام اصولوں میں وہ بنیادی قانون کہ جس نے مخالفین انقلاب اور امپیریلزم کو بہت صدمہ پہنچایا ہے اور ان لوگوں نے اس کے خلاف زبردست ہنگامہ آرائی کی ہے وہ “ولایت فقیہ” کا مسئلہ ہے۔ جو مدوّن ہوجانے کے بعد بھی مخالفین کی نظروں میں کھٹکتا ہے اور وہ لوگ آج بھی اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔کیوں؟
اس لیے کہ اس انقلاب کا بانی فقیہ ہے اوراس نے استبداد و استعمار کو شکست دے کر شہنشاہیت کی بنیادوں کو زمین دوز کردیا۔ اور یہی فقیہ ہے کہ جس نے حکومتِ اسلامی کی بنیاد رکھی نفوذِ اجانب کے مقابلہ میں اس کو سدّ سکندری بنا دیا۔
انہی ساری باتوں کے پیش نظر اور معاملے کی سنگینی اور پھر مسلۂ ولایت فقیہ سے ناواقفیت جن سے عوام کے ذہنوں کا گمراہ ہونا ممکن ہے یہ کتاب رشتۂ تحریر سے جوڑی گئی ہے اس لیے ہر ایک پر فرض ہے کہ وہ اس کتاب کو ضرور پڑھے تاکہ ولایت فقیہ کے مسئلہ کو کماحقہ سمجھ لے اور بے کار کے پروپیگنڈوں سے متاثر نہ ہو اس لیے کہ شیعوں کی تاریخ میں اسلام کا جو سب سے اہم ترین مسئلہ فقہاء و علماء کے پیش نظر رہا ہے اور جس میں مختلف طریقوں سے بحث و تحقیق کی گئی ہے وہ فقیہِ عادل کی حکومت کا مسئلہ ہے کیونکہ شیعی نقطۂ نظر سے اسلام کے اصولِ اعتقادی اور مسائلِ بنیادی میں امامت اور حکومتِ امام ایک اہم مسئلہ ہے اور ولایت فقیہ بھی اسی نظامِ امامت کے دوام کی بات ہے اور فقیہ عادل امام عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے نمائندے کی حیثیت سے امت کی رہبری اور قیادت انجام دیتا ہے لہٰذا مسئلے کی اہمیت قابل بحث و مباحثہ نہیں ہے اور فقیہ عادل کے لیے (دیگر حدود و خصوصیات سے قطع نظر کرتے ہوئے) حکومت کا حق بڑے بڑے فقہائے شیعہ کے نزدیک بدیہیّات میں سے ہے لیکن شیعہ تاریخ میں امام عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت کے بعد ولایت فقیہ کا مسئلہ وسیع پیمانے پر اور ایک فقیہ عادل کی حکومت کی صورت میں قابل عمل نہ ہوسکا اور فقہی کتابوں میں علمی مباحث کے اندر یا مخصوص مواقع پر جیسے مسئلۂ قضاوت یا دیگر جزئی مواقع کے علاوہ کہیں محل بحث نہیں رہا اور نہ کبھی اس مسئلے کو اس طرح پیش کیا گیا جس سے عوام مستفید ہوتے یا اس کی اہمیت کو سمجھتے یہاں تک کہ رہبرِ عالیقدر بزرگ مرجع تقلید شیعہ امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی عظیم قربانیوں کی بدولت ولایت فقیہ کی بنیاد پر ایران میں شکوہ مند و عظیم انقلاب اسلامی ورونما ہوا۔
انقلاب کی کامیابی کے بعد جب تک قانونِ اساسی کی تدوین کا مسئلہ سامنے نہیں آیا، ولایت فقیہ کے بارے میں بھی کوئی خاص اعتراض نہیں کیا گیا لیکن جیسے ہی قانون اساسی کی تدوین کا مسئلہ عوام کے سامنے پیش ہو اور یہ ہا گیا کہ حکومت اسلامی کی بنیاد اسلامی قانون پر رکھی جانی چاہیئے جو دنیا کے تمام نظاموں سے بہتر ہے اور اس میں ولایت فقیہ کو بھی قانونی دستور میں ہونا چاہیئے بَس اس وقت سے ملک کے گوشہ و کنار میں اعتراضات کی بھرمار ہوگئی۔
پیش نظر کتاب ان تمام شکوک و شبہات کا جواب فراہم کرتی ہے جو عموماً ذہنوں کو مشوّش کرتے ہیں لہٰذا ایران کے اسلامی انقلاب کے خد و خال کو سمجھنے اور ساتھ ہی ولایت فقیہ کے موضوع کو صحیح معنوں میں درک کرنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ از حد ضروری ہے۔