حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام و المسلمین سید محمد مہدی میرباقری نے شب تاسوعا حرم حضرت فاطمہ معصومہ(س) میں مجلس سے خطاب کے موقع پر،سورۂ کہف کی چند آیات جو کہ سید الشہدا (ع) سے متعلق ہیں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ حضرت سید الشہداء علیہ السلام کے سرِ مبارک نے نوک نیزہ پر سورۂ مبارکۂ کہف کی نویں آیۃ کی تلاوت کی،کیا آپ گمان کرتے ہیں کہ اصحاب کہف کا واقعہ ہماری عجیب آیات اور علامات میں سے ایک ہے؟ یعنی آپ گمان کرتے ہیں کہ یہ واقعہ تکرار نہیں ہوگا؟
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ خدا سورۂ مبارکۂ کہف کے شروع میں پیغمبر(ص) سے فرماتا ہے:اگر یہ لوگ اس پر (کتاب) ایمان نہ لائیں تو شاید تم غم کے مارے اپنی جان دے بیٹھو گے،مزید کہا کہ خدا فرماتا ہے کہ ہم نے زمین پر سہولیات رکھی ہیں کہ یہ سہولیات زمین کی زینت ہیں اور ہم نے اس زمین کو زینت بخشا ہے تاکہ آزمائش کا موقع فراہم ہو اور اس امتحان میں ہمارا مقصد ان لوگوں کو ظاہر کرنا ہے جو بہترین اعمال بجا لاتے ہیں۔
استاد حوزہ نے دنیوی جلوؤں کو امتحان الٰہی کا ذریعہ قرار دیا اور کہا کہ خدا ان آیات کے علاوہ،سورۂ ملک میں فرماتا ہے کہ خدا نے عالم حیات و ممات کو خلق کیا ہے تاکہ آپ کو آزمائے کہ آپ میں سے کون بہترین اعمال بجا لا سکتے ہیں،کیونکہ اگر دنیا میں موت نہ ہوتی تو اس دنیا سے بے رغبتی اور اچھے اعمال کی انجام دہی بہت ہی مشکل مرحلہ ہوتا۔
استاد میر باقری نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ دنیا میں بہترین اور بدترین بننے کا موقع ہے،کہا کہ جو لوگ بنی امیہ کی فوج میں شامل تھے اسی وجہ سے انہوں نے ولی خدا کو مارنے کے لئے ناپسندیدہ ترین اور منفور ترین اعمال کا ارتکاب کیا کیونکہ یہ لوگ دنیا کو حاصل کرنا چاہتے تھے اور جو شخص محض دنیا کی لذتوں کو حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ بد ترین انسان بن سکتا ہے،لیکن جو ولایت الٰہی اور حیات طیبہ کی وادی میں داخل ہوتا ہے وہ بہترین شخص ہو سکتا ہے۔
حجۃ الاسلام والمسلمین میر باقری نے کہا کہ خدا فرماتا ہے کہ اگرچہ ہم ان لوگوں کو مہلت دیتے ہیں جو دنیا کی لذت میں غرق ہونا چاہتے ہیں اور دنیا کے جلوؤں کو ان کے ہاتھ میں دیتے ہیں،لیکن آخر کار ہم دنیا کو،جو کہ آزمائش کی وادی ہے،ختم کر دیتے ہیں اور دنیا کی یہ زینت ختم ہو جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خدا سورۂ مبارکۂ حدید کی 20ویں آیۃ میں فرماتا ہے:«اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَیاةُ الدُّنْیا لَعِب وَ لَھو وَ زینَة وَ تَفاخُر بَیْنَکُمْ وَ تَکاثُر فِی الْأَمْوالِ وَ الْأَوْلادِ کَمَثَلِ غَیْثٍ أَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَباتُہُ ثُمَّ یَھیجُ فَتَراہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَکُونُ حُطاماً وَ فِی الْآخِرَةِ عَذاب شَدید وَ مَغْفِرَة مِنَ اللَّہِ وَ رِضْوان وَ مَا الْحَیاةُ الدُّنْیا ِلاَّ مَتاعُ الْغُرُور»."جان لو کہ دُنیا کی زندگی صِرف کھیل کُود ،سرگرمی، تجمل پرستی اورتمہارے درمیان تفاخرہے اور مال و اولاد میں اضافہ کاطلب کرنااس بارش کی طرح جس کاحاصل کسانوں کوتعجب میں ڈال دیتاہے ،پھروہ ( کھیتی ) خشک ہوجاتی ہے اس طرح کہ تو اسے زرد دیکھتاہے ۔پھر وہ خشک بھوسہ کی شکل میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔آخرت میں یاعذاب ِ شدید ہے یامغفرت ورضائے الہٰی ،بہرحال دنیا کی زندگی متاعِ غرور کے علاوہ اور کچھ نہیں۔"دنیا کی یہ سہولیات اور جلوے آزمائش کے لئے ہیں اور ایک دن یہ سب ختم ہو جائے گا۔
مجلس خبرگان رہبری کے رکن نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ پیغمبر (ص) مومنوں کے بارے میں فکر مند تھے کہ وہ دنیا کے ظاہری جلوؤں سے دھوکہ نہ کھائیں، مزید کہا کہ خدا رسول (ص) سے فرماتا ہے:کیا آپ گمان کرتے ہیں کہ اصحاب کہف کا واقعہ ہماری عجیب آیات اور علامات میں سے ایک ہے؟ یعنی آپ گمان کرتے ہیں کہ یہ واقعہ تکرار نہیں ہوگا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم نے اصحاب کہف کو غار میں پناہ دی اور ان کی حفاظت کی اسی طرح ہم دنیا میں مومنین کے لئے بھی کہف اور پناہ گاہ فراہم کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ خدا فرماتا ہے: ہم مؤمنین کو، جو دنیا کی ظاہری لذت اور زینت پر اچھے اعمال اور حیات طیبہ کو ترجیح دیتے ہیں، نجات دیں گے اور ہم ان کے دلوں کو مضبوط کریں گے اور ممکن ہے کہ دشمن اس پناہ گاہ کے پیچھے آجائے ، لیکن وہ مومنوں تک نہیں پہنچ پائیں گے اور ان کو ان راہ سے منحرف کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
حجۃ الاسلام والمسلمین استاد میر باقری نے بیان کیا کہ امام حسین علیہ السلام خدا کے کہف اور پناہ گاہ ہیں اور جو اس غار میں پناہ لیتا ہے،خدا اسے دشمنوں کی سازشوں سے بچاتا ہے اور دشمن، مؤمنین کے ایمان کو ختم نہیں کر سکتا۔