۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
News ID: 373019
4 اکتوبر 2021 - 12:01
ڈاکٹر عظیم امروہوی

حوزہ/ عظیم امروہوی ایک مرثیہ گو، نعت گو، منقبت گو، قطعہ گو، رباعی گو نظم گواورقصیدہ گو شاعر ہیں۔ ان کا میدان عمل محض شاعری تک محدود نہیں تھا بلکہ انہوں نے تحقیقی کارنامے بھی انجام دیئے۔

تحریر: جمال عباس فہمی،چیف ایڈیٹر قومی خبریں 

حوزہ نیوز ایجنسی کسی ادیب شاعر اور مصنف کی ادبی عظمت اور قدر و منزلت کا اندازہ لگانے کے کم از کم دو پیمانے تو ادبی دنیا مں رائج ہیں ہی۔ اولاً اس ادیب شاعر اور مصنف کے چھوڑے ہوئے ادبی سرمایہ کا معیار اور دوسرا مشاہیر، ادیبوں و شاعروں اور ادب کے ناقدین کی اس کے بارے میں رائے۔ ان دونوں پیمانوں پر جب عظیم امروہوی کی شخصیت، ان کی ادبی خدمات اور تخلیقی صلاحیتوں و کاوشوں کو پرکھا جاتا ہے تو عظیم امروہوی واقعی اسم با مسمیٰ نظر آتے ہیں۔

جس شاعر نے درجنوں مراثی، ہزاروں قصائد، سلام، منقبتیں، نوحے، قطعات، رباعیات، دوہے، ہائکو اور نظمیں نظم کی ہوں۔ جس شخص نے تحقیق اور تدوین کرکے نثر میں درجنوں کتابوں کو پیرایہ تخلیق بخشا ہو۔ جس فرد نے درجنوں کتابیں مختلف موضوعات پر مرتب کردی ہوں اس کی ادبی صلاحیتوں اور قلمی سرگرمی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

آئیے ادب کے ان پیمانوں پر عظیم امروہوی کی قلمی خدمات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ عظیم امروہوی ایک مرثیہ گو، نعت گو، منقبت گو، قطعہ گو، رباعی گو نظم گواورقصیدہ گو شاعر ہیں۔ ان کا میدان عمل محض شاعری تک محدود نہیں تھا بلکہ انہوں نے تحقیقی کارنامے بھی انجام دیئے۔ فرزدق ہند شمیم امروہوی کو بحیثیت مرثیہ نگار عظیم امروہوی نے ہی تاریخ کے نہاں خانوں سے نکال کرمنظر عام پر متعارف کرایا۔ شمیم امروہوی کے غیر مطبوعہ مراثی کو شائع کیا یہی نہیں بلکہ خاندان شمیم کے مرثیہ گو شعرا تک سے رثائی ادب کی دنیا کو متعارف کرایا۔

شمیم امروہوی نے مرثیہ گو شاعر کی حیثیت سے جو عظمت پائی وہ عظیم امروہوی کی تحقیقی اور تصنیفی کاوشوں کی مرہون منت ہے۔ عظیم امروہوی نے شمیم سخن اور شمیم عطش کے عنوان سے شمیم امروہوی کے مراثی شائع کئے۔ شمیم عقیدت کے عنوان سے شمیم امروہوی کی نعتیں، منقبتیں، سلام اور نوحے منظر عام پر پیش کئے۔ نسیم امروہوی کے مراثی کو تحقیق و تدوین کے بعد منظر عام پر پیش کیا۔ تحقیق جان فشانی کے بعد عظیم امروہوی نے وطن عزیز امروہا کے مرثیہ نگاروں اور قصیدہ گویوں کی تخلیقات کو رثائی اور مدحیہ ادب کی دنیا کے سامنے پیش کیا۔

عظیم امروہوی نے ایسے ایسے شعرا کے مراثی اور قصائد منظر عام پر پیش کر دیئے کہ ان شعرا کی اولادوں تک کو ان کا علم نہیں تھا۔ ان اولادوں کو اپنے اجداد پر فخر کرنے کا سبب عظیم امروہوی نے مہیا کیا۔ عظیم امروہوی نے تحقیق کے بعد اردو صحافت میں امروہا کا حصہ کے عنوان سے بھی ایک کتاب تصنیف کی۔ جو ایک تاریخی اور دستاویزی حیثیت رکھتی ہے۔ عظیم امروہوی کی نثری نگارشات میں دو سفر نامے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے سعودی عرب اور ایران کے اپنے دوروں کے روحانی اور جذباتی تجربات قلم بند کئے۔ رثائی ادب میں عظیم امروہوی کی قلمی سرگرمیوں کا اندازہ ان کی تصنیف کردہ حمدوں، نعتوں مراثی، قصائد، سلاموں اور نوحوں کے مجموعات کا مطالعہ کرکے لگایا جاسکتا ہے۔

عظیم امروہوی کی قلمی کاوشیں تقریباً پچاس کتابوں کی صورت میں ادبی سرمایہ کے طور پر محفوظ ہیں۔ عظیم امروہوی کا بہت سا رثائی ادبی سرمایہ اب بھی شائع ہونا باقی ہے۔ اب ادب کے دوسرے پیمانے پر عظیم امروہوی کی رثائی ادبی خدمات کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ معروف شعرا، ادبا اور تنقید نگاروں نے ان کے کلام کو کس نظر سے دیکھا ہے اور عظیم امروہوی کے تعلق سے انکے تاثرات کیا ہیں۔

مہذب لکھنوی رثائی اور مدحیہ شاعری کا بہت بڑا نام ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ حدیث غم۔ (عظیم امروہوی کا مجموعہ کلام) کو پڑھ کر دل ہاتھوں بڑھ گیا۔ بہت صاف صاف مصرعے نکالے ہیں۔ طبیعت کی روانی نے کلام میں چار چاند لگا دیئے ہیں‘‘۔

فضل لکھنوی بھی رثائی اور مدحیہ شاعری کا مستند نام ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔’’ان کی تمام تر نظموں میں اسلوب جدید کی جھلک ہے۔ اللہ نے طبع سلیم عطا فرمائی ہے اور دماغ کو وہ صلاحتیں بخشی ہیں جن کو محسوس کرکے ھذا من فضل ربی کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا‘‘۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو رہ چکے پروفیسر منظر عباس کے مطابق ’’میں پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ امروہا کی نئی نسل میں عظیم امروہوی کی شاعری ہر اعتبار سے قابل توجہ ہے۔ ان کے مراثی میں آپ کو ایک بالکل نیا انداز ملے گا۔ اس طرز جدید میں روایت سے انحراف کا پہلو غالب نظر آتا ہے‘‘۔

رئیس امروہوی۔ مفکر، شاعر، صحافی، دانشور۔ ’’جدید مرثیہ نگاروں میں قدر اول کی اہمیت عظیم امروہوی کو حاصل ہے۔ اس جواں فکر شاعر نے صنف مرثیہ میں جو اضافے کئے ہیں۔ ان کو دیکھ کر مسرت بھی ہوتی ہے اور حیرت بھی‘‘۔

جوش ملیح آبادی۔ ’’یہ بات وجہ مسرت ہے کہ ہندستان کا شاعر عظیم امروہوی فکر و نظر سے کام لے رہا ہے اور حسین ابن علی کے معرکہ حق سے درس عمل دینے پر آمادہ نظر آتا ہے‘‘۔

ڈاکٹر ہلال نقوی۔ ادیب، شاعر ناقد۔ ’’تقسیم کے بعد امروہا سے مرثیہ سے نا آشنا فضا کے جمود کو جس آواز نے توڑا ہے وہ عظیم امروہوی کی آواز ہے‘‘۔

روفیسر گوپی چند نارنگ۔ تنقید نگار اور دانشور۔ ’’عظیم امروہوی بڑی خوبیوں کے مالک ہیں۔ شاعر بھی نہایت قادر الکلام ہیں اور مختلف اصناف سخن میں داد دے کر اپنا سکہ جما چکے ہیں۔ انہوں نے جدید وضع کے مرثیے کہے ہیں۔ جن سے علوئے نفس، خود داری، ایثار و قربانی، حق گوئی، بے باکی، پا مردی، بلند ہمتی اور سرفروشی کی اعلیٰ اقدار کی ترویج کو تقویت ملتی ہے۔"

سید عاشور کاظمی۔ ادیب شاعر اور مصنف۔ ’’اگر موت و حیات پر قادر معبود نے مہلت حیات عطا کی تو جی چاہتا ہے کہ عظیم امروہوی پر ایک کتاب لکھی جائے‘‘۔

ڈاکٹر تقی عابدی کنیڈا۔ ادیب۔ ناقد، دانشور۔ ’’ڈاکٹر عظیم امروہوی رثائی ادب کے معمار، تہذیب امروہا کے پاسدار، مداح آل احمد مختار، دبستان انیس و دبیر کے طرفدار بیک وقت انیس یئے بھی ہیں اور دبیریئے بھی۔"

جون ایلیا۔ شاعر، ادیب دانشور۔ ’’امروہا کے محلہ لکڑہ کی جس گلی میں بڑے بڑے ادیبوں فقیہوں،علما نے قیام کیا۔عظیم میری اس گلی کا بائرن ہے‘‘۔

ڈاکٹر عظیم امروہوی 29 اپریل 1945 میں امروہا کے ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے سید نور الحسن کے گھر پیدا ہوئے۔ عظیم امروہوی کو محض دو سال چند ماہ کی عمر میں ہی ماں کے شفیق سایہ سے محروم ہونا پڑا۔ ان کی پرورش ان کی ننیہال کے اس گھر میں ہوئی جو محلہ دربار شاہ ولایت (لکڑہ) کی اسی گلی میں واقع ہے جہاں اپنے دور کے مشاہیر ادیب، علما، فقہا، صحافی اور دانشور رہا کرتے تھے۔ عظیم امروہوی نے الگ الگ وقتوں میں فضل لکھنوی، مولانا محمد عبادت کلیم اور نسیم امروہوی جیست شعرا سے کسب فیض کیا۔ پاکستان میں مقیم نسیم امروہوی کو عظیم امروہوی اپنا کلام اصلاح کے لئے ڈاک کے ذریعے بھیجا کرتے تھے۔ اور نسیم امروہوی ڈاک کے ذریعے ہی اصلاح کرکے کلام بھیج دیا کرتے تھے۔

ان کے سلاموں منقبتوں اور نوحوں کا پہلا مجموعہ حدیث غم 1972 میں لکھنؤ سے شائع ہوا۔

عظیم امروہوی 1965 سے 1968 تعلیم کی غرض سے لکھنؤ میں رہے۔ 1972 میں عظیم امروہوی نے اپنے پہلے مرثیہ حسین اور زندگی کا آغاز کیا۔ یہ ان کے قیام رامپور کے دور کی بات ہے۔ اپنے اسی مرثیہ کو پہلی مرتبہ انہوں نے 1975 میں محلہ بگلہ کے عزا خانے میں دو محرم کی مجلس میں پیش کیا۔ عظیم امروہوی کے پہلے مرثیہ کا پہلا بند نمونہ کے طور پر پیش ہے۔

زندگی اشک بھی ہے گوہر نایاب بھی ہے

زندگی قطرہ شبنم بھی مئے ناب بھی ہے

زندگی ساز بھی ہے نغمہ و مضراب بھی ہے

زندگی تشنہ بھی ہے زندگی سیراب بھی ہے

زندگی درد بھی ہے سوز بھی ہے راگ بھی ہے

زندگی ابر بھی ہے برق بھی ہے آگ بھی ہے

مراثی عظیم کا آخری مرثیہ حسین اور عصر حاضر کے عنوان سے ہے۔ یہ مرثیہ اصلاحی رنگ لئے ہوئے ہے۔ اس مرثیہ میں ضمیر فروشوں کی بخیہ ادھیڑی گئی ہے۔ اس مرثیہ کے کچھ بند بند بطور نمونہ پیش ہیں۔

کہیں عزت کہیں انساں نے شرافت بیچی

کہیں کردار کو بیچا کہیں سیرت بیچی

آج انسان نے اجداد کی عظمت بیچی

اور پردے میں کہیں عصمت و عفت بیچی

اس سے بڑھ کر بھی ہے ذلت کی کوئی حد یارو

بیچ ڈالے کہیں اسلاف کے مرقد یارو

اہل ایماں میں وہ ایماں کی حرارت نہ رہی

حافظ و قاری کی بے لوث تلاوت نہ رہی

مولوی رہ گئے لیکن وہ امانت نہ رہی

قاضی شہر کے بھی پاس شریعت نہ رہی

یہ عبائیں یہ قبائیں یہ عمامے لے لو

چاہے جس بھاؤ بھی بازار سے فتوے لے لو

ہوس جاہ میں منصب کے طلبگار ہوئے

اپنوں کے واسطے ہی در پئے آزار ہوئے

بھائی پر ایسی نظر جیسے کہ خونخوار ہوئے

جس سے ہم ڈرتے ہیں بس اس کے طرف دار ہوئے

صرف کرسی کے لئے رال بھی ٹپکاتے ہیں

عہدہ مل جائے کوئی اس پہ مرے جاتے ہیں

عظیم امرووی کے کلام میں ایک نظم عشق عظیم کے عنوان سے موجود ہے۔ 310 اشعار پر مشتمل اس نظم کو عظیم امروہوی نے جدید مرثیہ قرار دیا۔

عشق عظیم نظم کرنے کی تحریک انہیں میر تقی میر کی غزل: کیا بتاؤں تمہیں کہ کیا ہے عشق... جان کا روگ ہے بلا ہے عشق سے ملی۔ اس نظم یا جدید مرثیہ میں عام عشق سے لے کر اولیا اللہ کے عشق، رسولوں اور انبیا کے عشق کا ذکر کرتے ہوئے شاعر کربلا تک پہنچ جاتا ہے جہاں امام حسینؑ اور ان کے رفقا پروردگار عالم کے عشق میں اپنی جانوں کا نزرانہ تک پیش کرنے سے دریغ نہیں کرتے، اس نظم کے کچھ اشعار پیش ہیں۔

جب کسی کو کہیں ہوا ہے عشق

عشق کی روح پر جو ہو بنیاد

تب کہیں جا کے دیر پا ہے عشق

جو انیس و دبیر ہیں ان کا

مر بھر ذکر کربلا ہے عشق

ہیں جو اقبال شاعر مشرق

ان کے ہاں ایک فلسفہ ہے عشق

شاعر انقلاب جوش جو ہیں

ان میں تو آگ سا بھرا ہے عشق

یاد رکھیں گے اہل عشق تجھے

حشر تک تیرا تذکرہ ہے عشق

کربلا میں جو عشق خالق تھا

کہیں ایسا نہیں ملا ہے عشق

عشق کے کارواں ہو تجھ پہ سلام

ونے بتلا دیا کہ کیا ہے عشق

در حقیقت عظیم آپ کا تو

منقبت نعت مرثیہ ہے عشق

عظیم امروہوی کے کلام کی کل کائنات محمد و آل محمد سے ان کی بے پناہ عقیدت اور محبت کے اظہار کا وسیلہ ہے۔ واقعات کربلا کے پیغام کو عام کرنے کو انہوں نے اپنا قلمی مشن بنا لیا تھا۔ اس مشن پر وہ زندگی کے آخری ایام تک گامزن رہے۔ لیکن ان کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ انہیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ تعلیمات آئمہ اطہار کی تبلیغ کے لئے عظیم امروہوی اللہ سے اور مہلت چاہتے تھے۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اسپتال کے بستر پر جو انہوں نے نظم لکھی وہ اللہ سے اسی التجا پر مبنی ہے۔ اسی نظم میں وہ ایک جگہ کہتے ہیں

ابھی میرے قلم سے ہونا کچھ تحریر باقی ہے

ابھی اس کائنات عشق کی تسخیر باقی ہے

اسے کرنے کی قوت دے

ابھی کچھ اور مہلت دے خدارا اور مہلت دے

۔۔۔۔۔

میں پیویند زمیں ہونے کو تو تیار بیٹھا ہوں

بجز نعت و مراثی کام کیا۔ بیکار بیٹھا ہوں

نہ فرصت ہے نہ فرصت دے

ابھی کچھ اور مہلت دے خدارا اور مہلت دے

مگر افسوس کہ کارخانہ قدرت میں ان کے لئے مزید مہلت نہ تھی اور تشہیر تعلیمات محمد و آل محمد میں مصروف یہ قلمکار 10اکتوبر 2020 کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہو کر مالک حقیقی سے جا ملا۔

عظیم اب خوف محشر کیا زباں پر ذکر ہے میری

احد کا، پانچ، کا بارہ کا، چودہ، کا بہتر کا

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .