۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
آیت اللہ جعفر سبحانی

حوزہ / حضرت آیت اللہ جعفر سبحانی نے لندن میں خوجہ اثنا عشریہ کانفرنس کے موقع پر اپنے پیغام میں فرمایا: "ہمارے شیعہ علماء اس سرحد کے محافظ ہیں کہ جس کی دوسری طرف شیطان اور اس کے چیلے موجود ہیں اور وہ انہیں ہمارے کمزور شیعوں پر حملہ کرنے اور ان پر ابلیس اور اس کے پیروکاروں کے تسلط سے روکتے ہیں"۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے گروہ ترجمہ کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ جعفر سبحانی نے لندن میں خوجہ اثنا عشریہ کانفرنس کے موقع پر ایک پیغام جاری کیا ہے۔ ان کے اس بیان کا متن حسبِ ذیل ہے:

دو گروہوں کے درمیان گفتگو طولانی ہو گئی ہے، یہ اس معنی میں نہیں کہ وہم حقیقت کے مقابلہ میں ہے یا ظاہری صورت حقیقت کے سامنے کوئی مقام رکھتی ہے بلکہ وہم کے حامیوں کا شور اور ہنگامہ حق کی طرف دعوت کو نشانہ بناتا ہے اور ہوا و ہوس کے پجاریوں کا تکبر حق کے نعروں کی جگہ لینا چاہتا ہے۔

جی ہاں، حق کے علمبرداروں اور وسوسوں کے پیروکاروں کے درمیان گفتگو اس وقت سے جاری ہے جب سے ہمارے باپ آدم علیہ السلام زمین پر اترے تھے اور دونوں فرقوں کے درمیان مکالمے کا بازار گرم تھا۔

پس خداوندِ متعال نے ہر زمانے یا صدی میں آسمانی لوگوں کو سچائیوں کو واضح کرنے اور انہیں خواہشات کے خلاف لڑنے کے لیے مقرر کیا لیکن شیطان کے سپاہیوں کے ایک گروہ نے پوری طاقت اور ہٹ دھرمی کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔ اس کے باوجود، ان تمام صدیوں میں حقائقِ الہی، حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے سے لے کرحضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے تک اور ان کے زمانے سے لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے تک جو ایک ایسی مکمل اور جاودانہ شریعت لے کر آئے تھے جو زندگی کے تمام پہلوؤں کو شامل ہے، ایک چمکتی ہوئی روشنی کی طرح باقی رہے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی وفات کے بعد ثقلین کی پیروی کا حکم دیا اور فرمایا۔ «إنّی تارک فیکم الثقلین: کتاب الله، وعترتی أهل بیتی»۔ یعنی "میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ایک قرآن اور دوسری میری عترت و اہلبیت علیہم السلام"۔ اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ان دو خزانوں کی طرف مراجعہ کرتے تو ان کے عقیدہ اور حکم میں کبھی اختلاف نہ ہوتا۔ اس کے باوجود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں خبر دی کہ اس دین میں ہر صدی اور نسل میں ایسے عادل لوگ موجود ہوں گے جو باطل افراد کی جھوٹی تاویلات اور غلو کرنے والوں کی تحریفات اور جاہلوں کی لوٹ مار جیسے مظالم کو ان سے ایسے دور کر دیں گے جیسے آگ کی بھٹی لوہے کے زنگ اور ناخالصی کو دور کر دیتی ہے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ فرمایا تھا وہ سچ ثابت ہوا کیونکہ ہر دور میں جب وہ لوگ جو عقیدہ کو بگاڑنا اور انحراف پیدا کرنا چاہتے تھے اور امت مسلمہ میں تفرقہ ڈالنا چاہتے تھے تو صالحین افراد بھی ظاہر ہوتے۔ یہ صالحین ان منحرف افراد کے سامنے کھڑے ہو کر ان کا راستہ روکتے اور ان کا مقابلہ خدا کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے کرتے اور واضح دلائل کے ساتھ ان کے ساتھ مجادلہ کرتے تاکہ امت اسلامیہ کی راہ میں جو کانٹے بچھائے گئے تھے ان کو دور کر سکیں۔ جن لوگوں نے امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تقسیم کرنے اور تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کی ان میں سے ایک احمد بن تیمیہ ہے۔

اس شخص نے ان مسائل کا انکار کرکے امت میں تفرقہ پیدا کر دیا جس پر تمام علماء امت کا اتفاق تھا۔ اس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کرنے اور ان کے روضہ مبارک کی زیارت کے شرعی ہونے اور اس کے جواز سے انکار کیا اور سب سے بدتر یہ ہے کہ اس نے اپنی متعدد کتابوں میں تجسیم اور تشبیہ کا مطالبہ کیا اور یہاں تک کہ واضح طور پر کہا کہ خدای تعالیٰ عرش پر بیٹھتا ہے اور اسی طرح کے کئی مزید افسانے اور دیگر خرافات کہ جو عقل اور نقل سے بالکل بھی مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔

چنانچہ اس کے زمانے کے اور بعد کے علماء کے ایک گروہ نے، سنی اور شیعہ علماء میں سے اس کے گمراہ کن اور منحرف خیالات کا جواب دینے اور اس کی تردید کے لیے کئی کتابیں اور مقالے لکھے یہاں تک کہ اسے جیل بھیج دیا گیا اور وہیں پر انتقال کر گیا۔

ابن تیمیہ کے وہم اور منحرف خیالات پر اس کی موت کے بعد خاموشی رہی اور کوئی بھی اس کی طرف مائل نہ ہوا یہاں تک کہ بارہویں صدی میں محمد بن عبد الوہاب ظاہر ہوا۔

اس نے ابن تیمیہ کے افکار سے جو کچھ مٹ چکا تھا اسے دوبارہ زندہ کیا اور ناخواندگی کے ماحول میں ان باطل افکار کی پیروی اور ان پر عمل کرنے پر زور دیا۔

سعودی حکام نے حجاز میں پیسوں اور قبائل پر لوٹ مار کے ذریعہ عبد الوہاب کو سپورٹ کیا۔ یہ توہمات اور شبہات پھیلتے چلے گئے اور شیعہ اور سنی علماء نے حقائق کو واضح کرنے اور ان باطل توہمات اور شبہات کو رد کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے بے شمار کتابیں اور مقالات لکھے۔

ہم آپ کو اس باارزش کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ ایسی مختصر کتابیں ضرور شائع کریں گے جو ان شبہات کا واضح اور روشن جواب دینے کے ساتھ ساتھ ان مسائل کی ابتداء اور پھیلاؤ کے طریقۂ کار کو بھی واضح کریں گی۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "عُلَماءُ شیعَتِنا مُرابِطونَ فِی الثَّغرِ الّذی یَلی إبلیسَ و عَفاریتَهُ ، یَمنَعونَهُم عَنِ الخُروجِ عَلی ضُعَفاءِ شیعَتِنا ، و عَن أن یَتَسَلَّطَ عَلَیهِم إبلیسُ و شیعَتُهُ"۔

"ہمارے شیعہ علماء اس سرحد کے محافظ ہیں کہ جس کی دوسری طرف شیطان اور اس کے چیلے موجود ہیں اور وہ انہیں ہمارے کمزور شیعوں پر حملہ کرنے اور ان پر ابلیس اور اس کے پیروکاروں کے تسلط سے روکتے ہیں"۔

آخر میں، ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ کو اس سلسلہ میں کامیابی عطا فرمائے اور ہمیں امید ہے کہ اس مبارک کام کو خلوص نیت کے ساتھ جاری رکھیں گے۔

و الله من وراء القصد

جعفر سبحانی

قم، موسسسه امام صادق (علیه السلام)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .