حوزہ نیوز ایجنسی। حضرت آیت اللہ العظمی محمد تقی بہجت فرماتے ہیں کہ ہمارے ائمہ طاھرین علما ، فقہا اور راویاں احادیث کا احترام کیا کرتے تھے مگر ہم ان کی بے احترامی اور ان سے بد کلامی کرتے ہیں اور اس بات سے غافل ہیں کہ ان کی کمترین اہانت کےنتیجہ میں دنیا میں بھی بلائیں نازل ہوسکتی ہیں جیسے عمر کا گھٹ جانا، برا سرانجام اور اس طرح کی دیگر مصیبتیں۔
ایک دن ایک انسان نے صاحب جواہر سے بد کلامی اور بحث کرلی، صاحب جواہر نے اسے بد دعا دے دی اور انہوں نے امیرالمومنین علی ابن طالب علیہما السلام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر مجھ سے بحث سے اس شخص کا مقصد کچھ اور تھا تو اسے نجف اشرف سے باہر نکال دیجئے، اس بد دعا کے بعد وہ انسان نجف اشرف چھوڑنے پر مجبور ہوگیا اور ۱۵ سال تک مختلف شھروں میں دربہ در بھٹکتا رہے اور کہیں مستقل قیام نہ کرسکا ۔
شاید بعض اہل علم یہ گمان کریں کہ اگر علماء اور اہل علم ایک دوسرے کی تنقیص کریں تو کوئی ہرج نہیں ہے مگر ایسا نہیں ہے اہل علم پر اعتراض اور ان کی تنقیص و توہین کی سزا، عوام الناس کی توہین سے کہیں زیادہ و بالاتر ہے ، لہذا علماء کو نا اہل بنانے اور نا اہل کہنے کے سلسلہ میں بھی انسان کو احتیاط سے کام لینا چاہئے کیوں کہ یہ چیز علماء کی تنقیص اور برائی کے زمرہ میں آتی ہے۔
رسول خدا(ص) اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ «من کان یؤمن باللَّه و الیوم الآخر فلا یجلس فی مجلس یسب فیه إمام أو یغتاب فیه مسلم»؛[5]
جو کوئی بھی خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے ایسی نشست اور مجلس میں نہ بیٹھے جس میں امام ( دینی رھبر کہ معمولا علماء ہیں) برائی کی جاتی ہو اور انہیں برا بھلا کہا جاتا ہو یا مسلمان کی غیبت کی جاتی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: ایت اللہ العظمی بہجت کے حضور میں، ج۳، ص۲۶۳
۲: تفسیر القمی ، علی بن ابراهیم قمی ، محقق و مصحح سید طیب، موسوی جزائری، ج 1، ص 156، قم، دار الکتاب، چاپ سوم، 1404ق.