تحریر : محمد جواد حبیب
حوزہ نیوز ایجنسی। تکفیری یا تکفیریت ایک ایسی اصطلاح ہے جو ایک خاص مکتب فکر کی مسلم جماعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہےتکفیری وہ جماعت ہے جو اپنے علاوہ دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دیتی ہے۔سلفیت کے اندر سے ابھرنے والا یہ گروہ آج عالم اسلام کے لئے سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور دنیا کو ناقابل تلافی مادی اور معنوی، جانی اور مالی نقصان پہنچا رہا ہے اس گروہ کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے کیلئے تکفیری طرز فکر کے بانی رہنماوں کی زندگی اور ان کے افکار و عقاید سے آشنائی انتہائی ضروری ہے اس تحریر میں ہماری کوشش ہوگی کہ تکفیری سوچ کے چند بانی رہنماوں کی شخصیت کا جائزہ لیں۔ ان رہنماوں میں احمدابن حنبل، ابن تیمیه، رشیدالرضا، سیدقطب اورمحمدابن عبدالوهاب کے نام زیادہ اہم ہیں۔
تکفیریت کی مختصرتاریخ :
صدر اسلام سے ہی تکفیری خیال رکھنے والے خوارج کی صورت میں موجود تھے اسکے بعد دوسری صدی ہجری میں "اہل حدیث" کے نام سے ایک گروہ اسی خیال کو لیکر ابھرا ،جو کلام اسلامی کے دنیا میں "فرقہ معتزلہ" کے مقابلہ میں اور فقہی دنیا میں" اہل رائی "کے مقابلہ میں قیام کیا اس کے بعد ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری میں اس فکر کو" ابن تیمیہ"نے اپنایا اور اس کو پھیلانے میں کوشاں رہا لیکن اس زمانہ کے علماء و اسلامی دانشوروں نے اسکی شدیدمخالفت کی اس کے بعد تین سو سال تک یہ فکر دبی رہی لیکن بارویں صدی ہجری میں محمد بن عبدالوھاب نے اس فکر کو نجد عربستان میں دوبارہ زندہ کیا اور آل سعود اور برطانیہ کی حمایت سے ایک فرقہ کاسیاسی نظام وجود میں لایا جسکو "وھابیت" سے موسوم ہو گیا ۔
تکفیری گروہ کے عقاید :
تکفیری گروہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ تمام مسلمان ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہیں اور شرک کا شکار ہیں۔ ان کا کفر اصلی ہے اور وہ کفار سے بھی زیادہ بدتر ہیں۔ لہذا ان کا قتل واجب ہے اور ان کی جان اور مال ان پر حلال ہے۔تکفیری عناصر خاص قسم کے افکار اور اعتقادات کے حامل ہیں، جو اسلامی دنیا کے مختلف حصوں میں گروہوں اور سیاسی جماعتوں کی صورت میں سرگرم عمل ہیں۔ درحقیقت تکفیری عناصر کسی خاص گروہ یا جماعت تک محدود نہیں بلکہ تکفیریت ایسی سوچ کا نام ہے جس کا حامل اپنے سے مختلف سوچ رکھنے والے مسلمانوں کو کافر قرار دیتا ہے۔ مسلم دنیا میں کئی مختلف گروہ اور جماعتیں اس طرز تفکر کی نمائندہ ہیں، جنہیں تکفیری گروہ یا جماعتوں کا نام دیا جاتا ہے۔ تکفیری ایسے فرد یا گروہ کو کہا جاتا ہے جس کی فکری بنیادیں سلفی اور وہابی طرز تفکر کی مختلف تعبیروں میں سے کسی ایک پر استوار ہوں اور وہ دوسرے مسلمانوں کو صرف اس بنا پر کہ وہ اس کے ہم عقیدہ نہیں ہیں اور اپنے باطل معیاروں کی بنیاد پر کافر اور دین سے خارج قرار دیتا ہو۔
تکفیری گروہ کی خصوصیات :
1. یہ لوگ انتہا پسند اور ظاہر پرست ہوتے ہیں یعنی ہمیشہ قرآنی آیات اور احادیث نبوی (ص) کے ظاہری معانی کی روشنی میں فتویٰ دیتے تھے
2. خوف اور وحشت پھیلانے میں کوشاں رہتے ہیں جسکے بناپر ہزاروں بے گناہوں اور مظلوموں کو قتل عام کرتے ہیں
3. جہالت اور جاہلانہ تعصب کو زندہ رکھتے ہیں
4. فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ کاموں کو اجاگر کرتے ہیں
5. تمام مقدس اور تاریخی اماکن کو خراب کرتے ہیں جیسے تخریب جنت البقیع و غیرہ
6. فکری اصولوں کو عقل اور منطق کے بجائے جذبات اور احساسات پر پرکھتے ہیں۔ جیسے احمدبن حبیل نے شدت پسندی کا شکار ہو کر عقلانیت اور عقل پسندی کو مکمل طور پر ممنوع قرار دیا تھا ۔ان کی نظر میں آیات قرآن اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سمجھنے میں عقل کا استعمال مکمل طور پر حرام ہے۔ ابن تیمیہ کہتا ہے:وہ افراد جو عقل کی تعریف و تمجید کے مدعی ہیں، درحقیقت ایسے بت کی تعریف و تمجید کا دعویٰ کرتے ہیں جسے انہوں نے عقل کا نام دیا ہے۔ عقل ہرگز ہدایت اور ارشاد کیلئے کافی نہیں، ورنہ خداوند کبھی بھی نبی یا رسول نہ بھیجتا۔
7. ان ممالک، گروہوں، فرقوں اور افراد کی مدد کرتے ہیں جنکے اہداف اور مقاصد ان سے مشترک ہو خواہ وہ مسلمان ہو یا غیرہ مسلمان۔
8. مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور تفرقہ کو ایجاد کرنے میں ہر وقت تیار رہتے ہیں
9. سیاسی، سماجی، فکری اور ثقافتی لحاظ سے یہ لوگ پسماندگی کا شکار ہوتے ہیں ۔
۱۰۔ جدید فکری اور معاشرتی رجحانات کی شدید مخالفت کرتے ہیں ۔
تکفیری گروہ کے بانی اور رہنما:
1۔ احمد بن حنبل:
تکفیری سوچ کا جائزہ لینے کیلئے ضروری ہے کہ سلفی مکتب فکر کے آغاز کو مدنظر قرار دیا جائے اور یہ وہ مرحلہ ہے جو احمد بن حنبل سے منسوب ہے۔ حدیث کی معروف کتاب "المسند" کے مصنف اور حنبلی فقہ کے بانی احمد بن حنبل کو سلفیت کا بانی اور مجدد مانا جاسکتا ہے۔ ان کی نظر میں آیات قرآنی اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سمجھنے میں عقل کا استعمال مکمل طور پر حرام ہے اور ہمیں صرف ان کے ظاہری معانی تک ہی اکتفا کرنا چاہئے۔اعتقادات کو بیان کرنے کی نوعیت کے بارے میں احمد بن حنبل کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ صحابہ اور تابعین کی بیان کردہ عبارات کو بعینہ نقل کرتے تھے۔ جس مسئلے میں صحابہ اور تابعین نے سکوت اختیار کیا ہو، احمد بن حنبل بھی سکوت اختیار کرتا ہے۔وہ ایک جگہ کہتاہے: "ہم حدیث کو بالکل ویسے کے ویسے بیان کرتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں جوہم تک پہنچی ہے ۔
پہلی صدی سے لے کر تیسری صدی ہجری تک فقہی اعتبار سے اہلسنت دو گروہوں "اہل رائے" اور "اہل حدیث" میں تقسیم تھے۔ اہل حدیث فرقے کے علماء شرعی احکام کے استنباط میں عقل کیلئے کسی اہمیت اور مقام کے قائل نہ تھے اور اپنے بقول صرف قرآن و سنت تک ہی محدود رہتے تھے۔ احمد بن حنبل کا شمار اہلسنت کے چار فرقوں کے ان فقہاء اور مذہبی پیشواوں میں ہوتا ہے جو "عقلی استدلال" کے شدید مخالف تصور کئے جاتے تھے۔ ابن تیمیہ نے بھی ساتویں اور آٹھویں ہجری قمری میں احمد بن حنبل کے طرز فکر کی پیروی کرتے ہوئے انہیں کے راستے کو انتخاب کیا۔ درحقیقت یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ابن تیمیہ احمد بن حنبل کی راہ و روش کا مجدد تھا۔
احمد بن حنبل نے اپنے فرقے کی بنیاد درج ذیل بنیادی اصولوں پر استوار کی:
1۔ قرآن و سنت کی نصوص
2۔ صحابہ پیغمبر (ص) کے فتوے
3۔ ان میں اختلاف کی صورت میں جو فتویٰ بھی قرآن و سنت کے مطابق ہو
4۔ تمام ضعیف اور مرسل احادیث کو معتبر سمجھنا۔
2۔ احمد ابن تیمیہ:
ابن تیمیہ ایک حنبلی فرقے سے تعلق رکھنے والے گھرانے میں پیدا ہوا۔ ایسا گھرانہ جس کے افراد اس فرقے کے بڑے مذہبی رہنماوں میں شمار کئے جاتے تھے احمد ابن تیمیہ کو اسلامی تفکر کی تاریخ اور اگلے مراحل میں سیاست اور معاشرے کے عملی میدانوں میں عظیم تبدیلی کا منشا قرار دیا جاسکتا ہے۔ جب ابن تیمیہ اپنے زمانے میں پورے زور و شور سے اپنے نظریات پیش کرنے میں مصروف تھا اور پوری تگ و دو کے ساتھ سیاسی اور سماجی سرگرمیاں انجام دے رہا تھا اور اپنے افکار کے شدت پسندانہ ہونے اور اسلامی نظریات اور مبادیات سے اجنبی ہونے کی خاطر اکثر مسلمان علماء کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کر رہا تھا اور مسلمان علماء اسے ترک کرچکے تھے، تو شائد اسے خود بھی اس بات کا یقین نہیں تھا کہ صدیوں بعد محمد بن عبدالوہاب اس کے نظریات کو ازسرنو زندہ کر دے گا اور اکیسویں صدی عیسوی میں اس قدر مخلص حامی پیدا کر لے گا جو اسلامی دنیا کے بڑے حصے پر اثرانداز ہوسکیں گے۔
ابن تیمیہ کہتا ہے: "پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، انبیاء اور صالحین کی قبور کی زیارت کا حرام ہونا، نماز پڑھنے اور دوسرے شرعی احکام میں کوتاہی برتنے والوں کو قتل کرنے کا حکم۔" اسی طرح ابن تیمیہ اہل تشیع سے شدید متنفر تھااور وہ ایسے ایسے اعتقادات کو شیعہ مسلک سے منسوب کرتا ہے جس کے خود شیعہ بھی معتقد نہیں۔ اس کی نظر میں اہلسنت کے علاوہ باقی تمام مسلمان فرقوں سے وابستہ مسلمان اہل دوزخ میں سے ہیں۔
مختصر الفاظ میں یہ کہ موجودہ تکفیری گروہوں کی نظریاتی بنیاد فراہم کرنے اور ان کی جانب سے اپنی شدت پسندانہ سرگرمیوں کو شرعی جواز فراہم کرنے میں استعمال ہونے والے ابن تیمیہ کے اہم افکار اور اعتقادات کو مندرجہ ذیل انداز میں بیان کیا جاسکتا ہے:
الف)۔ بدعت:
ابن تیمیہ کی نظر میں ہر وہ چیز جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سلف صالح کے زمانے میں نہیں تھا بدعت ہے۔ ابن تیمیہ کا عقیدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل کرنا صرف ان کی زندگی میں ہی تھا اور آپ (ص) کی وفات کے بعد کسی صحابی یا تابعی نے پیغمبر اکرم (ص) سے توسل نہیں کیا۔
ب)۔ قبور کی زیارت کیلئے جانا:
ابن تیمیہ کی نظر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، ائمہ معصومین علیھم السلام اور بزرگان کی قبر مبارک کی زیارت کیلئے جانا ایسا ہی ہے جیسے جاہلیت کے دور میں بت پرستی کی جاتی تھی، لہذا بدعت اور حرام ہے۔
ج)۔ استغاثہ اور توسل:
ابن تیمیہ شفاعت اور انبیاء و ائمہ معصومین علیھم السلام سے توسل کو زمانہ جاہلیت کی باقیات قرار دیتا ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، ائمہ معصومین علیھم السلام اور بزرگان سے توسل کرنے والوں کو مشرک اور کافر سمجھتا ہے
د)۔ خدا کے علاوہ کسی اور کے نام کی قسم کھانا:
ابن تیمیہ کے ایسے فتوے جو اسی کے ساتھ مخصوص ہیں، میں سے ایک یہ ہے کہ وہ خدا کے علاوہ کسی اور کے نام کی قسم کھانے کو حرام قرار دیتا ہے۔
ہ)۔ شیعہ دشمنی:
ابن تیمیہ نے پوری کوشش کی کہ اہل تشیع کو یہودیوں اور اسلام دشمن عناصر سے وابستہ ایک سیاسی گروہ کی صورت میں پیش کرے۔
و)۔ جبریت:
ابن تیمیہ گہرے تفکر اور بصیرت کے نہ ہونے اور اسی طرح عقل کو ترک کرنے کے باعث اپنے اکثر اعتقادی نظریات میں جبر کا قائل ہے۔
3۔ محمد بن عبدالوہاب:
تکفیری مکتب فکر کا ایک اور رہنما محمد بن عبدالوہاب ہے۔ اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنی نوجوانی سے ہی تفسیر، حدیث اور عقائد کی کتب کے مطالعے میں دلچسپی رکھتا تھا اور خاص طور پر ابن تیمیہ اور ابن قیم کی کتابوں کو بہت اہمیت دیتا تھا۔ لہذا نظریاتی اعتبار سے ابن تیمیہ کو محمد بن عبدالوہاب کا فکری مرشد قرار دیا جاسکتا ہے۔ البتہ بعض محققین کا خیال ہے کہ محمد بن عبدالوہاب کا حسب نسب ایک یہودی گھرانے سے جا ملتا ہے، جو ترکی کے شہر جہودان دونمے میں رہائش پذیر تھے اور خود کو مسلمان ظاہر کرتے تھے۔ محمد بن عبدالوہاب کو ابن تیمیہ کی کتابوں سے خاص دلچسپی تھی، لہذا اس نے ان میں غوروخوض کرنا شروع کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ محمد بن عبدالوہاب نے ابن تیمیہ کے افکار و نظریات کو عملی جامہ پہنایا۔ محمد بن عبدالوہاب نے "وہابی" نامی فرقے کی بنیاد رکھی، جو 12 ویں صدی ہجری سے اب تک چلا آرہا ہے۔
لبنان کا بہت بڑا عالم دین سید محسن امین اپنی کتاب " کشف الارتیاب فی اتباع محمد بن عبدالوهاب "میں محمد بن عبدالوہاب کے عقائد و افکار کو مندرجہ ذیل انداز میں بیان کرتے ہیں:
1. مرحومین حتٰی پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین علیھم السلام کے ایصال ثواب کیلئے مجالس کے انعقاد کا حرام ہونا۔
2. انبیاء اور اولیاء الہی کی قبور شریفہ پر ہر قسم کی عمارت اور گنبد کی تعمیر کا حرام ہونا۔
3. انبیاء اور ائمہ علیھم السلام کی زیارت، ان سے توسل کرنا اور بارگاہ خداوند میں انہیں اپنا شفیع قرار دینا حرام ہے۔ اسی طرح قربت کی نیت سے نذر نیاز تقسیم کرنا اور قربانی کرنا بھی حرام ہے۔
4. ائمہ معصومین علیھم السلام کے حرم میں نماز ادا کرنا حرام ہے۔ حتٰی محمد بن عبدالوہاب کے پیرو تکفیری عناصر ائمہ معصومین علیھم السلام کے حرم مبارک کو نابود کرنے کو واجب قرار دیتے ہیں۔
5. ہر اس شخص کی اطاعت واجب ہے جو تلوار کے زور پر حکومت بنا کر خود کو امام مسلمین کے طور پر پیش کرے۔ وہ حالات کے تناظر میں فیصلے کرتا ہے اور دوسروں پر اس کی اطاعت واجب ہے۔ ماضی کے افراد کے افکار و نظریات کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
6. محمد بن عبدالوہاب کے پیروکار ایسے تمام مسلمان فرقوں کو کافر قرار دیتے ہیں، جن کے افکار و نظریات ان سے مختلف ہیں اور اس بنا پر ان کے قتل کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ محمد بن عبدالوہاب نے حنبلی فرقے کے علاوہ باقی تمام فرقے کے افراد سے جنگ کی ہے۔ وہ حنبلی فرقے کو بھی ابن تیمیہ کے پیش کردہ نظریات و افکار کی روشنی میں پیش کرتا تھا۔ محمد بن عبدالوہاب اجتہاد کو مانتے ہیں، لیکن چار مسلمان فرقوں میں سے کسی کی پیروی کو جائز نہیں سمجھتے۔ محمد بن عبدالوہاب کے پیروکار، تکفیری عناصر کی طرح یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ تمام مسلمان ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہیں اور شرک کا شکار ہیں۔ ان کا کفر اصلی ہے اور وہ کفار سے بھی زیادہ بدتر ہیں۔ لہذا ان کا قتل واجب ہے اور ان کی جان اور مال ان پر حلال ہے ۔
تکفیریت کا مقابلہ:
تکفیریت امت اسلامیہ کے لئے ایک سخت ترین مشکل ہے جس سے آج مسلمان دست بگریباں ہیں اسکے باعث مسلمان اپنی صلاحیت و توانائی کو بروئے کار نہیں لا پا رہے ہیں ہمیں اس مشکل کے حل کے طور پر صحیح اسلام کو پہچنوانے کی ضرورت ہے۔
اور مشترکات پر توجہ دیتے ہوئے اختلافی مسائل پر مختلف مذاہب کے علماء کے درمیان گفتگو ہونی چاہئے،عالم اسلام کے علماء پر لازم ہے کہ وہ کفر کے حدود کو معین کریں اور مقام اجتہاد تک پہونچنے کے لئے راستے کا تعین کریں۔
تکفیری سوچ نے اسلام کوشدید نقصان پہنچایا ہے اس کے مقابلے کے لئے اتحاد امت کے لئے عملی اقدامات کرنا ہوں گےعقید ہ توحید،ختم نبوت اور محبت اہل بیت علیہم السلام کو مسلمانوں کے درمیان عام کرنا چاہئے ۔
اسلامی مذاہب کے درمیان برادرانہ تعلقات قائم ہونے چاہئے اور ساتھ ہی مسلمانوں میں ظلم کے مقابلہ کا جذبہ بھی مستحکم ہونا چاہئےاور اسی طرح عالم اسلام کے علماء اور علمی مراکز کے درمیان باہمی تعاون کا دائرہ بھی وسیع ہونا چاہئے۔
کون مسلمان ہے؟ اسلام کا معیار کیا ہے؟ وہ کون سی چیزیں ہیں جن کا انکار انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے؟ آج پوری دنیا کے علماء، مفکرین اور مفتیوں پر اس بات کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مل کر ایک کلی قانون وضع کریں کہ جس پر عمل پیرا ہونے کے بعد انسان مسلمان کے حکم میں آجائے اور اسکی جان، مال، عزت و ناموس محفوظ تصور ہو، کیونکہ ایک بہت ہی مشہور اور ہر شخص کو حفظ حدیث کہ جو سکولوں کی کتابوں تک میں ذکر ہوئی ہے کہ رسول اکرم (ص) کا فرمان مبارک ہے: المسلم من سلم المسلم من یدہ و لسانه؛ مسلمان وہ ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اس بنا پر جو شخص توحید ، نبوت اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مسلمان ہے اسکی جان و مال کی حفاظت کرنا واجب ہے ۔