۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
آیت الله استادی

حوزه/ آیۃ اللہ استادی نے کہا کہ مؤمنین کے دلوں کو خوش کرنے کا ایک بہترین طریقۂ کار صدقہ دینا ہے اور اس عمل سے صدقہ دینے والے شخص کی زندگی میں بہت سی برکتیں نازل ہوں گی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جامعۂ مدرسینِ حوزہ علمیہ قم کے رکن اور استادِ اخلاق آیۃ اللہ رضا استادی نے حسینیۂ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ قم میں درسِ اخلاق کی نشست سے خطاب کے موقع پر، رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں صدقہ دینے کے معنوی آثار و برکات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ روایت میں آیا ہے کہ افضل الصدقة فی رمضان؛رمضان المبارک میں دیئے جانے والے صدقات بہترین صدقہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ صدقہ کے مادی اور دنیوی اثرات کے ساتھ بہت سے معنوی فوائد بھی ہوتے ہیں۔

آیۃ اللہ استادی نے کہا کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا ارشاد ہے کہ ألصَّدَقَهُ إذَا خَرَجَت مِن یَدِ صَاحبِهَا قبلَ أن تَقَعَ فی یدِ سَائلٍ تَکَلَّمَ بِخَمسِ کلماتٍ: أوَّلُها تَقُولُ کُنتُ صَغِیراً فَکَبَّرتَنِی، کُنتُ قَلیلاً فَکَثَّرتَنِی ؛ صدقہ کی مقدار جتنی بھی ہو، کیونکہ اسے خدا کی راہ میں دیا جاتا ہے، اگرچہ اس کی مقدار اور رقم کم ہی کیوں نہ ہو، روایت کا مفہوم یہ ہے کہ ہم اس چھوٹے مال کو صدقے کے بدلے میں عظیم کریں گے۔

انہوں نے صدقہ دینے میں حقدار ہونے کی شرط کو لوگوں میں ایک عام غلطی قرار دیا اور کہا کہ صدقہ وصول کرنے والے کا مستحق ہونا ضروری نہیں ہے، البتہ ضرورت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنا اور مشکلات کو برطرف کرنا بہتر اور احسن عمل ہے۔

حوزہ علمیہ قم کے استادِ اخلاق نے مذکورہ بالا روایت کی تفسیر کرتے ہوئے کہا کہ حضرت علی علیہ السلام اس روایت میں صدقے کے طور پر دیئے جانے والے مال کے بارے میں فرماتے ہیں: وَ کُنتُ عَدُوَّاً فَأحبَبتَنِی؛ دینی تعلیمات کی رو سے مال کو ایک طرح سے انسان کا دشمن قرار دیا گیا ہے، کیونکہ اس میں اچھائی کے ساتھ برائی بھی ہو سکتی ہے۔ روایت میں آیا ہے کہ دنیا کا مال صدقہ میں بدل کر انسان کا دوست بن جاتا ہے۔

انہوں نے صدقہ کے حوالے سے قرآن کریم کی بعض تعلیمات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ «مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ بَاقٍ»؛ کیونکہ صدقہ کا معاملہ خدا کے ساتھ ہوتا ہے، لہذا یہ فانی حالت سے جاوداں حالت میں بدل جاتا ہے۔ روایت کے ذیل میں مزید آیا ہے کہ کُنتُ فَانِیاً فَأبقَیتَنی؛ میں فانی تھا اور تم نے مجھے جاودانی بنایا۔

آیۃ اللہ استادی نے کہا کہ آگے مزید فرماتے ہیں کہ وَ کُنتَ حَارِسِی فَالآنَ صِرتُ حَارسَکَ؛ اپنے مال و دولت کو خیرات کے طور پر دے کر، اس کی دیکھ بھال کرنے کے بجائے، مال و دولت کو اپنی آخرت کا ذریعہ بنائیں۔انہوں نے کہا کہ انسان جو کچھ خدا کی راہ میں دیتا ہے وہ فنا نہیں ہوگا؛ روایات میں آیا ہے کہ صدقہ دے کر اپنے ایمان کو برقرار رکھیں۔

جامعۂ مدرسین حوزہ علمیہ قم کے رکن نے کہا کہ روایات میں آیا ہے کہ مؤمن کی پانچ نشانیاں ہیں؛ ان میں سے ایک، نادار اور غریب شخص کی طرف سے صدقہ دینا ہے۔انہوں نے تنہائی میں بھی گناہ سے پرہیز کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مؤمن کی دوسری نشانی یہ ہے کہ وہ تنہائی میں بھی گناہ سے پرہیز کرتا ہے۔

آیۃ اللہ استادی نے کہا کہ مؤمنین کے دلوں کو خوش کرنے کا ایک بہترین طریقۂ کار صدقہ دینا ہے اور اس عمل سے صدقہ دینے والے شخص کی زندگی میں بہت سی برکتیں نازل ہوں گی۔

انہوں نے صدقات و خیرات دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جب بھی ہم خیرات دینے کا ارادہ کریں تو ہمیں اسے فوراً ادا کرنا چاہئے، کیونکہ اگر ہمارے ارادے اور اس عمل میں فاصلہ پیدا ہو جائے تو شیطان ہمیں اس نیک کام سے روک دے گا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .