حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مدرسہ امام المنتظر قم میں شہادت حضرت امام باقر علیہ السلام سے خطاب کرتے ہوئے مدرسہ امام المنتظر قم کے سربراہ نے کہا کہ امام محمد باقرؑ ان آئمہ اہلبیت میں سے ہیں جنہیں کھل کر دین مبین اسلام اور مذہب تشیع کیلئے کام کرنے کا موقع ملا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے متعدد شعبوں جیسے فلسفہ، احکام، اصول و عقائد اور تاریخ وغیرہ میں تمام مسلمانوں بالخصوص شیعوں کی علمی تربیت کی جس کی تفصیل بہت سی تاریخی کتب مثلا تاریخ طبری وغیرہ میں موجود ہے جس میں آپ کی بہت سی احادیث اور روایات بیان کی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امام محمد باقر ؑ اپنے ماننے والوں کو تاکید کرتے تھے کہ وہ آپ سے دینی سوالات پوچھا کریں۔ آپ فرماتے تھے کہ جب میں تمہارے سوالوں کا جواب دوں تو مجھ سے اس کی قرآن سے دلیل اور حوالے ضرور پوچھ لیا کرو۔ آپ تمام مسلمانوں بالخصوص اپنے شیعوں کو تمام مسائل کے حل کیلئے قرآن اور سنت نبوی سے متمسک رہنے اور قرآنی علوم سے بہرہ مند ہونے کی تاکید فرماتے تھے۔
انکا مزید کہنا تھا کہ امام محمد باقر ؑ ان لوگوں کے ساتھ بھی انتہائی صبر اور خندہ پیشانی سے بات کرتے تھے جو آپ کی امامت کے منکر تھے۔ آپ ان کے ساتھ انتہائی شفقت سے گفتگو فرماتے اور قوی دلائل سے استدلال کرتے۔ آپ کا نظریہ یہ تھا کہ اگر آپ سے کوئی سیاسی، مذہبی یا کسی اور شعبہ میں اختلاف رکھتا ہوتو مضبوط دلائل کے بغیر الزامات، لعن طعن اور دھمکیوں سے آپ اس کو قائل نہیں کرسکتے، ممکن ہے اس طرح اختلافات کی خلیج مزید گہری ہوجائے لیکن اگر دلیل سے بات کی جائے تو ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کی بات مان لے۔ یہ وہ تعلیمات ہیں جو قرآن مجید، پیغمبر اکرم اور آپ کے اہلبیت ؑ سے ہمیں ملتی ہیں اور انہی تعلیمات کی روشنی میں ہم اپنے اختلافات کو ایک دوسرے پر الزامات اور لعن طعن کرنے کی بجائے مضبوط عقلی اور منطقی دلائل کے ذریعے ختم کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امام محمد باقر ؑ امت مسلمہ کے سیاسی مسائل سے بے حد پریشان رہتے تھے۔ اگرچہ خلافت پر نبی امیہ قابض تھے اور نبی امیہ کے آئمہ اہلبیت ؑ کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں تھے مگر آپ اسلامی مملکت کو لاحق خارجی خطرات پر کڑی نگاہ رکھتے تھے۔ امام محمد باقر ؑ کے دور امامت میں اموی حکومت بہت مشکل صورتحال سے گزر رہی تھی اس لئے آپ نے اسلام کی نشرو اشاعت اور تبلیغ کیلئے اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور اسلامی ثقافت کے پرچار میں آپ کا کردار اس قدر نمایاں تھا کہ آپ کے مخالفین اور عباسیوں کی طرف دار بھی آپ کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔