حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شہر عزائے حسین امروہا میں شہیدان کربلا کا چہلم مجلس، ماتم، نوحہ، خوانی ،مرثیہ خوانی اور تعزیوں کے جلوس کے سائے میں اختتام پزیر ہوا۔محلہ بگلہ کے عزا خانے میں مجلس عزا کے بعد تعزیوں کا جلوس برامد ہوا جو شہر کے اہم مقامات سے گزرتا ہوا نوگانواں روڈ پر واقع کربلا میں اختتام پزیر ہوا۔
اس مجلس میں سوزخوانی شاداب امروہوی اور انکے ہمنواؤں نے کی جبکہ مجلس سے خطاب مہمان ذاکر مولانارضا حیدر زیدی نے کیا۔انہوں نے قید خانہ سے اہل حرم کی رہائی دمشق میں مجلس عزا کی بنیاد ڈالتے ہوئے شہیدوں کا ماتم کرنے سے لیکر کربلا میں شہیدوں کا اربعین منانے تک کے واقعات و مصائب بیان کئے۔
تعزہوں کا جلوس برامد ہونے سے پہلے سبط سجاد اور حسن امام اور انکے ہمنواؤں نے چہلم کا مخصوص مرثیہ،”قید سے چھوٹ کے جب سید سجاد آئے” پڑھا۔ کمنٹری کے انداز میں واقعات کربلا کو معروف مرثیہ نگار چھنو لعل دلگیر نے اس مرثیہ میں بہت پر درد اور پر اثر انداز میں بیان کیا ہے۔جیسے جیسے جلوس آگے بڑھتا رہا اس میں مختلف عزا خانوں کے تعزیے بھی شامل ہوتے چلے گئے۔شہر کے اہم علاقوں سے گزرتا ہوا تعزیوں کا یہ جلوس نوگانواں روڈ پر واقع کربلا پہونچا جہاں تعزیوں میں رکھی تربتوں کو سپرد خاک کی گیا۔
امروہا میں شہیدان کربلا کا چہلم اور چھنو لعل دلگیر کا نظم کردہ مرثیہ” قید سے چھوٹ کے جب سید سجاد آئے” لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔دلگیر لکھنؤ کا نظم کردہ یہ مرثیہ چہلم کے روز اتنی کثرت کے ساتھ دنیا کے کسی بھی شہر میں نہیں پڑھا جاتا جتنا امروہا میں ایک روز میں پڑھا جاتا ہے۔چہلم کے روز یہ مرثیہ شہر عزائے حسین میں ہر گھر اور ہر در پر پڑھا جاتا ہے۔
ویسے تو اس مرثیہ کو شہر کا ہر سوز خوان پڑھتا ہے لیکن چہلم کے جلوس میں استاد حسن امام اور انکے بھانجے سبط سجاد اور انکے ہمنوا ہی اس مرثیہ کو جگہ جگہ پڑھتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق چہلم کے روز شہر میں تقریباً تین سو مقامات پر یہ مرثیہ پڑھا جاتا ہے اور ہر مقام پر دونوں سوز خوان کم از کم دو دو بند اس مرثیہ کے پیش کرتے ہیں۔چہلم کے روز یہ مرثیہ پڑھنے کی ابتدا محلہ بگلہ کی مجلس سے ہوتی ہے اور آخری مرتبہ محلہ لکڑہ میں تاریخی قبرستان میں اسے دونوں سوز خوان پڑھتے ہیں۔
ضلع پولیس اور سول حکام شہر میں رسومات عزا کی ادائےگی میں بھرپور تعاون فراہم کرتے ہیں۔ جلوس کے راستے میں ٹریفک کو مینیج کرنا ہو یا عزا خانوں کے اطراف سیکورٹی کی فراہمی ہو یا دوران جلوس عزاداروں کی سلامتی کو یقینی بنانا ہو پولیس حکام اپنے فرض کی ادائےگی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔