حوزہ نیوز ایجنسی|
سورۂ بقرہ جو قرآن مجید کا دوسرا سورہ ہے۔ اس کی آیت 183 ۔ 184 ۔ 185 میں روزہ کا حکم بیان کیا گیا۔ آیت 184 میں ہے کہ کوئی شخص جو بیمار ہو یا سفر میں ہو وہ روزہ نہ رکھے بلکہ رمضان کے بعد ان روزوں کو رکھے۔
تفسیر مجمع البیان میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے حضورؐ سفر میں واجب اور سنتی روزہ رکھا کرتے تھے۔ حضورؐ سفر میں تھے اور قافلہ کے سارے مسلمان روزے سے تھے۔ دن ڈھلنے کے بعد یہ آیت اتری کہ سفر اور مرض میں روزہ نہ رکھو۔ حضورؐ نے اسی وقت کھانے پینے کا سامان طلب فرمایا اور سب کے سامنے روزہ افطار کیا اور مسلمانوں کو بھی افطار کرنے کا حکم دیا۔ مگر چند لوگ جو بخیال خود حضورؐ سے بھی کچھ زیادہ ( معاذ اللہ) مقدس تھے انھوں نے روزہ کو مکمل کرنا چاہا کہ تھوڑا دن رہ گیا ہے اب روزہ کھولنا اچھا نہیں لگتا۔ دن پورا کر لینا چاہئے پھر روزہ عبادت ہی تو ہے۔ اگر ہم روزہ رکھے رہیں گے تو مصروف عبادت ہی تو رہیں گے۔ چنانچہ ان لوگوں نے روزہ نہیں کھولا اور اپنے تقدس اپنے ایمان ، اپنے عقیدہ اور اپنے عمل کے غرور پر باقی رہے۔ حالانکہ جب خدا حکم دے اور نبیؐ حکم خدا پر عمل کر کے دکھائے اس کے بعد جو شخص بھی اپنی بات پر اڑا رہے وہ دین و ایمان سے منحرف ہے۔ چنانچہ حضورؐ نے ان لوگوں کو عصاۃ ، گناہگار کا خطاب دیا۔ آپ کے فرمانے کے بعد تمام مسلمان ان کو ہمیشہ عصاۃ کہتے رہے۔ سوسائٹی میں ان کو ان کے خبیث عمل نے جو جگہ دلائی تھی وہ ان کا مقدر بن گئی۔ حضورؐ کی زندگی میں ان لوگوں کے نام سے عصاۃ کا لفظ نہیں مٹ سکا۔ البتہ حضورؐ کے بعد جب حالات ہی بدل گئے اور مسلم سماج میں حضورؐ کے بعد عصاۃ یعنی گناہگاروں ، نافرمانوں کا دور دورہ ہو گیا تو اب کون ان کو کس منہ سے عصاۃ کہتا۔ سب ہی ان کے رنگ میں رنگ گئے تھے۔
ناواقف اسے اتفاق کہہ سکتا ہے لیکن عقل ایمانی رکھنے والا ہر قلب مسلم اس کو خدائی انتظام کہےگا کہ قبلہ بدلنے کا حکم بھی حالت نماز میں آیا تھا۔ جس طرح سفر میں روزہ نہ رکھنے کا حکم روزہ کی حالت میں آیا حضورؐ نے عین حالت نماز میں بیت المقدس کے بجائے کعبہ کی طرف منہ کر کے باقی نماز ادا کی۔ اس وقت بھی کچھ بزعم خود زیادہ مومن اور مقدس مسلمان سوچتے رہ گئے تھے۔ تعمیل کے بجائے الٹا خدا اور رسولؐ کے بارے میں سوچنے لگے کہ یہ کام تو نماز کے بعد بھی ہو سکتا تھا۔ ( ان کے خیال میں ) نماز خراب کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ حالانکہ عبادت صرف حکم خدا کی تعمیل کا نام ہے۔ اور اسی خالص تعمیل کو دیکھنے اور دنیا کو دکھانے کے لئے خدا نے حالت نماز میں قبلہ بدلنے کا حکم بھیجا اور حالت روزہ میں سفر میں روزہ توڑنے کا حکم بھیجا۔
مندررجہ بالا دونوں باتوں میں مصلحت الہیٰ یہی تھی کہ کسی رائج عبادت کو اہمیت دینے کے بجائے حکم خدا کو اہمیت دی جائے۔ اسی مصلحت الہیٰ کو ظاہر اور واضح کرنے کے لئے امام حسین علیہ السلام عین حالت سجدہ میں نبیؐ کی پیٹھ پر آ کر بیٹھ گئے تھے اور حکم خدا کے مطابق نبیؐ نے سجدہ کو حسینؐ کے اترنے کے انتظار میں طول دیا تھا۔ تابع احکام الہیٰ و سنت نبوی سجدہ میں رہے تھے اور اپنے خیال کے بڑے مومن بڑے محب، بڑے مقدس و متقی خدا و نبیؐ و امامؐ کی نظر میں عصاۃ نافرمان گناہگار قابل مذمت و ملامت قرار پائے تھے۔ ان کی نظر میں حسینؐ سے خدا تک سب قابل اعتراض تھے۔ ( معاذ اللہ)
ان تینوں واقعات سے آج کے مسلمان کو سبق لینا چاہئے کہ کسی کے خیال کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ قیمت صرف حکم خدا، حکم نبیؐ ، حکم امامؐ کی ہے۔ آج حکم خدا کے معلوم کرنے کا واحد ذریعہ اعلم فقیہ و مجتہد کی تقلید کرنا ہے اور ان کے فتوے پر عمل کرنا ہی حکم الہیٰ کی تعمیل ہے۔ عبادت ہے۔ اسلام ہے۔ ایمان ہے۔ محبت اہلبیت علیہم السلام ہے ورنہ اپنے خیال پر عمل کرنے والے یا کسی کے خیال کی اطاعت کرنے والوں کو صرف عساۃ ، نافرمان کا خطاب ملےگا اور اس خطاب کے بعد صرف غضب خدا و نبیؐ و امامؐ کا سامنا کرنا ہوگا۔ جس کی عملی شکل عذاب ہے جو قبر سے شروع ہوتا ہے۔ لہذا تقلید کیجئے یعنی اپنے کو ضالین و مغضوب علیہم کی فہرست میں شامل ہونے سے بچاتے ہوئے صراط مستقیم پر چلئے۔ تاکہ اہلبیت علیہم السلام کی پیروی کا پھل جنت و نعمات جنت حاصل ہو۔
حوالہ: مقالات خطیب اعظم، جلد 3۔
ناشر: ادارۂ تنظیم المکاتب لکھنو