۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۲ شوال ۱۴۴۵ | May 1, 2024
مولانا ظہور مہدی مولائی

حوزہ/ ہمارا فریضہ ہے کہ ھم ان کی عطاکردہ اس انمول سوغات کو ھمیشہ اپنے پاس باقی رکھیں ، تاکہ ماہ رمضان کے بعد بقیہ زندگی میں بھی اس سے استفادہ کر سکیں۔ 

تحریر: مولانا ظہور مہدی مولائی، خطیب و امام جمعہ مسجد جامع ولئ عصر، مہاجنگا سٹی، مڈگاسکر

حوزہ نیوز ایجنسی | ماہ رمضان ، وہ نہایت محترم ، مقدس اور مبارک دینی و قمری مہینہ ہے کہ جس کا با عظمت نام اور تذکرہ قرآن حکیم میں آیا ہے۔

یہ مہینہ ، اس قدر عظمتوں اور فضیلتوں سے بھرا ہوا ہے کہ خداوند حکیم و عظیم نے اپنی چاروں آسمانی کتابیں ( قرآن ، انجیل ، توریت اور زبور) اسی میں نازل فرمائی ہیں۔(1)

عربی لغت کے اعتبار سے " رمضان " جلانے والے کو کہتے ہیں۔ (2)

اس عظیم الشان مہینہ کا نام " رمضان " اس لئے رکھا گیا ھے کہ یہ گناہوں کو جلا دیتا ھے

جیساکہ سرکار مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ھے:

" انما سمی رمضان لانہ یرمض الذبوب " (3)

یعنی ماہ رمضان کو رمضان اس لئے کہا جاتا ھے کہ یہ انسان کے گناھوں کو جلا دیتا ھے۔

یہ مہینہ اتنا پاک و پاکیزہ ہے کہ اس میں سانس لینا تسبیح اور سونا عبادت کا ثواب رکھتا ہے اور اس میں انسان کے اعمال قبول اور دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔(4)

غرض یہ کہ اس کے شب و روز بلکہ تمام لمحات و لحظات دینی و ایمانی روحانیت و معنویت سے لبریز ھوتے ہیں۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماہ رمضان کے بعد آخر اس عظیم روحانیت و معنویت کو کیسے باقی رکھا جائے اور وہ کون سے طریقے ہیں جو اس روحانیت و معنویت سے ہمیں مسلسل بہرہ مند کرتے رہیں ؟

جواباً عرض ہے کہ غور و خوض کرنے سے ماہ مبارک رمضان کی روحانی و معنوی فضا کو عمر کے بقیہ حصوں میں باقی رکھنے کے بہت سے طریقے سامنے آتے ہیں ، لیکن ان سب کا ذکر اس مقالہ کی بساط سے باہر ھے ، لہذا ان میں سے فقط چند اھم طریقے یہاں تحریر کئے جا رہے ہیں :

1۔ عرفان و ایمان :

سب سے بنیادی چیز یہ ہے کہ جملہ الہی و دینی پرو گراموں کے فوائد و منافع سے بہرہ مند ھونے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ عز و جل اور اس کے دین کی بحد کافی معرفت حاصل کی جائے اور معرفت کے بعد خداوند متعال اور اس کے دین پر مکمل یقین اور ایمان پیدا کیا جائے ، اگر یہ دونوں مرحلے کامیابی کے ساتھ سر کر لئے جائیں تو پھر الہی و دینی تمام اصول ، قوانین ، احکام اور منصوبوں پر عمل آسان ہوجاتا ہے اور اس طرح انسان کو ایمان اور نیک و صالح عمل کے ھمراہ دنیا و آخرت کی سعادت و خوش بختی حاصل ہوجاتی ہے ، جیساکہ خود خداوند متعال نے قرآن حکیم میں اعلان فرمایا ہے :

" الذین آمنوا و عملوالصالحات طوبیٰ لھم و حسن مآب " (5)۔

یعنی جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے صالح اعمال کئے ، ان کے لئے پاکیزہ ترین زندگی اور بہترین سر انجام ہے۔

2۔ عزم و ھمت اور مکمل تیاری :

انسان جس طرح اپنی جسمانی صحت و تندرستی کی طرف توجہ دیتا ہے ، اس سے کہیں زیادہ اسے روحانی و معنوی سلامتی اور عافیت کی طرف توجہ دینی چاہیئے چونکہ بلاشبہ روح کو جسم و بدن پر فوقیت و برتری حاصل ہے۔

الحمد للہ اسلام وہ کامل و جامع دین ہے کہ جس نے انسان کی جسمانی و روحانی تمامتر ضرورتوں ، نزاکتوں اور ظرافتوں کا بھر پور خیال رکھا ھے اور دونوں کی نگہداشت ، تربیت ، سلامتی اور رشد و ترقی کے لئے طرح طرح کے احکام و قوانین مقرر کئے ہیں اور انسان کے لئے ان پر عمل کو واجب و لازم قرار دیا ھے۔

بلا شبہ اللہ عز و جل کی طرف سے ماہ مبارک رمضان جسمانی و روحانی تربیت ، اصلاح اور رشد و ترقی کا ایک انمول اور نہایت جذاب و دلکش دینی انتظام و اہتمام ہے۔

لیکن اس سے کماحقہ مستفید ھونے اور اس کی بر کتوں کو زندگی میں باقی رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان ، پورے عزم و ھمت اور مکمل آمادگی کے ساتھ اس کا استقبال کرے۔

یاد رہے کہ اس عظیم اور مقدس وادی میں مکمل تیاری سے داخل ہونا دین و شریعت کی نگاہ میں اتنا اہم ہے کہ اس نے رجب و شعبان جیسے با عظمت مہینوں کو اس کی تمہید اور تیاری کا زمانہ قرار دیا ہے۔

پس ھمیں ماہ رجب و شعبان کے اندر ماہ رمضان میں داخل ھونے کے لئے بہت مضبوط اور ھمہ جہت تیاری اور آمادگی کرنی چاہیئے ، چونکہ جتنا مستحکم عزم و ارادہ ہوگا اور جتنی پائیدار ہماری ھمت و آمادگی ہوگی ، اتنے ھی پائیدا اور دیرپا فیوض و برکات ھمیں ماہ رمضان سے حاصل ھوں گے ، جیساکہ سرکار امیرالمومنین مولا علی علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد مبارک ہے:

"المرء یطیر بھمتہ "(6)۔

انسان اپنی ھمت کے مطابق پرواز کرتا ہے۔

3- محاسبہ نفس :

دنیا و آخرت میں سعادت و کامیابی سے ھمکنار ھونے کے لئے یہ بھی ضروری ھے کہ انسان اپنے سرکش نفس پر ہر وقت کڑی نظر رکھے اور ھمیشہ اپنے اعمال و افعال کا محاسبہ کرتا رہے۔

نیز دھیان رکھے کہ اعمال و افعال کا محاسبہ کرتے وقت اگر نیکیاں سامنے آئیں تو خداوند رؤف و مہربان کا شکر بجالائے اور اس کی بارگاہ اقدس میں ان کی قبولیت کی دعا کرے لیکن اگر برائیاں نظر آئیں تو ان پر شرم و افسوس کرتے ھوئے اللہ تعالی سے بخشش و مغفرت طلب کرے اور انھیں چھوڑنے کے پختہ ارادہ کے ساتھ اس سلسلہ میں اپنے رحیم و کریم اور قدیر و عظیم پروردگار سے مدد اور توفیق مانگے۔

یہ محاسبہ نفس کا تقریباً وھی طریقہ ھے جو خداوند قدوس و سبحان کے معصوم و مقدس ولی ، عبد صالح حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ الصلوۃ والسلام نے تعلیم فرمایا ھے ، اس سلسلہ میں آنحضرت کا ارشاد مبارک یہ ھے :

" لیس منا من لم یحاسب نفسہ فی کل یوم فان عمل خیرا استزاد اللہ منہ و حمد اللہ علیہ و ان عمل شرا استغفراللہ منہ و تاب الیہ۔ (7)

یعنی اس کا تعلق و رشتہ ہم سے نہیں ہے جو ہر دن اپنے نفس کا حساب و کتاب نہ کرے۔

پس (جو محاسبہ نفس کرےاور) اسے نیک کام نظر آئے تو اللہ سے اس میں اضافہ کی دعا مانگے اور اس پر اللہ کی حمد بجا لائے اور اگر برا کام دکھائی دے تو اللہ سے اس پر معافی اور بخشش طلب کرے اور اس کی بارگاہ میں توبہ بجا لائے۔

ھمیں معلوم ہے کہ ماہ مبارک رمضان میں بہت سی عظیم توفیقات کے ھمراہ محاسبہ نفس کی بہترین توفیق بھی ھمیں نسبتاً زیادہ فراہم ہوتی ھے اور ھم سب کو یہ باعظمت زمانہ اپنے نفسوں اور کاموں کی جانچ پرتال کی طرف آسانی سے متوجہ کر دیتا ھے ، بالخصوص اس مہینہ کی شبہائے قدر ھمیں اپنے رب کے حضور گڑگڑانے ، تضرع و زاری کرنے ، اپنے گناھوں کو یاد کر کے ان پر پچھتانے ، انھیں چھوڑنے اور ھمیشہ راہ دین و قرآن پر گامزن رہنے کے ارادہ جیسی نہایت باعظمت اور انمول سوغات عطا کرتی ہیں۔

لہذا ھمارا فریضہ ہے کہ ھم ان کی عطاکردہ اس انمول سوغات کو ھمیشہ اپنے پاس باقی رکھیں ، تاکہ ماہ رمضان کے بعد بقیہ زندگی میں بھی اس سے استفادہ کر سکیں۔

4- قرآن مجید سے مسلسل رابطہ:

قرآن حکیم ، خداوند متعال کا نازل کیا ہوا دین اسلام کا وہ پاک و بے عیب دستور و قانون ہے جو انسانی زندگی کے تمام مرحلوں میں بہترین ہدایت و راہنمائی کی پوری پوری قوت و صلاحیت رکھتا ھے اور ھر زمانہ کے انسانوں کو دنیا و آخرت کی سعادت و خوشبختی عطا کرنے کی مکمل ضمانت دیتا ہے ، شرط یہ ہے کہ انسان اس کے ہدایات و فرامین کو جامہ عمل پہنانے میں ذرہ برابر کوتاہی سے کام نہ لے۔

خداوند عظیم و حکیم نے اس اسلامی دستور و منشور کو بشکل قرآن ، ماہ رمضان میں نازل فرمایا ہے اور ہم اہل اسلام و ایمان بالخصوص ماہ رمضان میں قہری طور پر اس سے بہت مرتبط و ناموس نظر آتے ہیں ، اسی لئے دنیا بھر کی مساجد ، امام بارگاہوں اور دیگر دینی مقامات پر اس کی قرائت و تلاوت اور تفسیر و تشریح کے شاندار جلسات و اجتماعات بہت پرشکوہ انداز میں برپا کئے جاتے ہیں جو بلاشبہ قرآن کو سمجھنے اور سمجھانے اور اس پر عمل کرنے اور عمل کرانے میں نہایت مفید اور مددگار ثابت ہوتے ہیں اور یہی چیز ماہ رمضان میں ھماری زندگی کو گناھوں کی آلودگی سے بچانے اور پاکیزہ بنانےکا ایک اہم سبب قرار پاتی ھے ، لہذا ضرورت ھے کہ جو قرآنی فضا اس مبارک مہینہ میں وجود میں آتی ہے ، انفرادی اور اجتماعی طور پر اسے ماہ مبارک رمضان کے بعد بھی باقی رکھا جائے ، تاکہ ماہ رمضان کی روحانیت و معنویت باقی زمانہ میں بھی ہمارے وجود پر حاکم و قائم رہے۔

یاد رہے کہ تلاوت قرآن کا مقصد ، اس کے ہدایات و تعلیمات کو سمجھنا اور ان کو سمجھنے کا مقصد ، انھیں جامۂ عمل پہنانا ہونا چاہیئے۔

ھمارے رسول و ائمہ طاہرین علیہم الصلوۃ والسلام تو بلاشبہ قرآنی ہدایات و تعلیمات کی جیتی جاگتی عملی تصویر تھے ، ان کی تو شان ہی ممتاز و منفرد تھی ، اس کے باوجوہ وہ سب کے سب خداوند متعال کے تقرب ، انسانوں کے تزکیہ و تہذیب اور ان کی تعلیم و تربیت کی خاطر بکثرت ، قرآن حکیم کی تلاوت فرمایا کرتے تھے اور انھیں کا اتباع کرتے ہوئے ہمارے قابل قدر علما بھی قرآن حکیم کی پابندی سے تلاوت کیا کرتے تھے ، جس کے کچھ نمونے ہم یہاں تحریر کر رہے ہیں :

۱۔ محدث قمی علیہ الرحمہ کے بیان کے مطابق علامۂ جلیل القدر میر داماد علیہ الرحمہ قرآن مجید کی بہت تلاوت کیا کرتے تھے ، اتنی کہ ہر رات آپ پندرہ پارے پڑھا کرتے تھے۔ (8)

۲۔ حجت الاسلام سید احمد خمینی علیہ الرحمہ کا بیان ہے کہ جب ہم نجف میں تھے تو امام خمینی علیہ الرحمہ تین دن میں ایک قرآن ختم کیا کرتے تھے لیکن جب جماران تہران میں آئے تو بڑھاپے کی وجہ سے ایک قرآن دس دن میں ختم کیا کرتے تھے۔(9)

۳۔ علامۂ بزرگوار محمد تقی مجلسی علیہ الرحمہ نے اپنے بیٹے علامۂ نحریر محمد باقر مجلسی علیہ الرحمہ کو ہر دن قرآن مجید کا ایک پارہ پڑھنے کی وصیت کی تھی۔ (10)

۴۔ شیخ اعظم انصاری علیہ الرحمہ اپنے سن بلوغ سے لے کر آخری عمر تک ہمیشہ ہر دن قرآن مجید کے ایک پارہ کی تلاوت کیا کرتے تھے۔(11)

رب کریم سے دعا ہے کہ ماہ مبارک رمضان کی طرح ہم سب کو ہمیشہ قرآن حکیم سے مانوس رہنے ، اس کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرنے ، اسے زیادہ سے زیادہ سمجھنے اور اس کے ہدایات و تعلیمات پر بطور مکمل عمل پیرا ہونے کی توفیق کرامت فرمائے۔آمین

حوالے:

1۔ کلینی ، یعقوب ، الکافی ، ج 1، ص 628 ، دار الکتب الاسلامیہ ، تہران۔

2-اصفہانی ، راغب ، مفردات الفاظ القرآن ، ص 209 ، دار الکتاب العربی ، بیروت۔

3- مجلسی ، محمد باقر ، ج 55 ،ص 341 ، موسسۃ الوفاء ، بیروت۔

4- عاملی ، حر ، وسائل الشیعہ ، ج 10،ص 313 ، دار الکتب الاسلامیہ ، تہران۔

5- قرآن مجید ، سورہ رعد ، آیہ 29

6۔ مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج 18، ص 380 ، موسسۃ الوفاء ، بیروت۔

7- مجلسی ، محمد باقر ، ج 67 ، ص 72 ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت۔

8- سبحانی ، جعفر ، سیمائ فرزانگان ، ص 172 ، موسسۂ امام صادق ، قم۔

9- رجائی ، غلام علی ، برداشتھائ از سیرہ امام خمینی ، ج 3 ، ص 12 ،موسسۂ نشر آثار امام خمینی ، تہران۔

10- سیمائ فرزانگان ، ص 167۔

11- حوالۂ سابق ، ص 162۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .