۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
جنت البقیع

حوزہ/ بقیع کے مزارات کی تعمیر نو تک احتجاج جاری رہے گا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،نئی دہلی 19/ اپریل- مدینہ منورہ میں قبرستان جنت البقیع جس میں خانوادہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم ہستیوں اور اصحاب رسول کی نورانی قبور ہیں اس قرستان کوخاندان آل سعود کے حجاز مقدس پر اقتدار کے ساتھ ہی 1925ء میں مسمار کردیا گیا تھا اس تاریخی ظلم پر گزشتہ ایک صدی سے امت اسلام اور عاشقان رسول اللہ و محبان اھل بیتؑ رسالتمآب مسلسل احتجاج اور سعودی حکومت سے اس کی دوبارہ تعمیر کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔

اسی مناسبت سے اھل بیت کونسل انڈیا اور آل انڈیا شیعہ کونسل کی جانب سے باب العلم، اوکھلا وہار نئی دہلی میں جلسہ احتجاج اور مجلس عزا کا انعقاد کیا گیا۔

اس موقع پرمجلس کو خطاب کرتے ہوئے امامیہ ہال کے امام جمعہ مولانا شیخ ممتاز علی نے کہا کہ مقام افسوس ہے کہ آل سعود نے اپنے اقتدار کے آغاز سے ہی حجاز مقدس مکہ و مدینہ میں اسلامی آثار کو مٹانا شروع کردیا تھا جس میں اھل بیتؑ واصحاب کی یادگاروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا صرف جنت البقیع ہی نہیں بلکہ مکہ میں جنت معلیّٰ جیسے تاریخی قبرستان کو بھی مسمار کیا گیا۔

آل انڈیا شیعہ کونسل کے صدر مولانا جنان اصغر مولائی نے اپنی تقریر میں کہا کہ جنت البقیع کی مسماری عاشقان رسول وآل رسولﷺ کے دلوں پر گزشتہ ایک صدی سے ایک زخم کی مانند ہے جس پر ہمیشہ احتجاج جاری رہے گا۔

مولانا سید مہدی زیدی نے کہا کہ ہم سعودی حکومت کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوۓ جلد از جلد جنت البقیع کی تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ عجیب بات ہے کہ اسلام کے جن قابل فخر آثار کا تحفظ فریضہ ایمانی تھا انہیں آل سعود نے مسمار کردیا۔

اھل بیت کونسل کے سکریٹری مولانا جلال حیدر نقوی نے کہا جنت البقیع کی مسماری کو 100 سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا ہے ہمیں امید ہے کہ بیت المقدس کی آزادی کے ساتھ ہی جنت البقیع کی تعمیر کی راہ ہموار ہوگی۔

اس موقع پر آل انڈیا شیعہ کونسل کی اپیل پر جنت البقیع کی تعمیر کیلئے ملک گیر سطح پر جاری دستخطی مہم کے تحت تمام شرکاء نے اس مہم میں حصہ لیا۔

پروگرام میں تلاوت کے فرائض مولانا علی کوثر کیفی نے انجام دئیے جبکہ رئیس حیدر زیدی نے سوزخوانی کی۔

مجلس میں مولانا طالب حسین، مولانا سجاد ربانی ،مولانا اظہر عباس سانکھنوی مولانا مرزا عمران علی، مولانا مرزا عرفان علی، قمر عباس سرسوی کے علاوہ کثیر تعداد میں مومنین شریک رہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .