۲۳ آذر ۱۴۰۳ |۱۱ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 13, 2024
News ID: 398794
11 مئی 2024 - 09:05
حضور تیم ملی فوتبال جوانان ایران در نماز جمعه کرج

حوزہ/ آج پھر وہ کتابوں میں ڈوبا ہوا تھا، اب تو باقاعدہ اس کے دوستوں نے اسے دنیا داری کے طعنے دینا شروع کر دیے تھے۔ ایسے متحرک فرد کی گوشہ نشینی اب ان کے لیے حیرانی سے بڑھ کر الجھن اور پریشانی میں بدل گئی تھی، اس کے بچپن کی ایک بڑی خواہش پوری ہو چکی تھی یعنی جس حکومت کے خلاف جد و جہد کے سبب وہ اپنا ملک چھوڑنے پہ مجبور ہوا تھا بالآخر وہ آمر اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا۔

تحریر: سید زین عباس زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی| آج پھر وہ کتابوں میں ڈوبا ہوا تھا، اب تو باقاعدہ اس کے دوستوں نے اسے دنیا داری کے طعنے دینا شروع کر دیے تھے۔ ایسے متحرک فرد کی گوشہ نشینی اب ان کے لیے حیرانی سے بڑھ کر الجھن اور پریشانی میں بدل گئی تھی، اس کے بچپن کی ایک بڑی خواہش پوری ہو چکی تھی یعنی جس حکومت کے خلاف جد و جہد کے سبب وہ اپنا ملک چھوڑنے پہ مجبور ہوا تھا بالآخر وہ آمر اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا، لیکن واپس آجانے کے بعد وہ پہلے جیسا جوشیلا انسان دیکھنے کو نہیں ملا۔ اس کی زندگی یونی ورسٹی ، اپنے ایراناٹکس کلب اور گھر میں محدود ہو کے رہ گئی تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ تھک گیا ہے اور اب اسے اپنے آس پاس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ وہ نہیں دیکھنا چاہتا کہ معاشرے میں کیا ہو رہا ہے، اور اس کی زمہ داری کیا بنتی ہے۔

پھر ایک دن ایسا واقعہ رونما ہوا کہ اس کی زندگی سے تمام حجابات ہٹ گئے، لوگوں کو خبر ملی کہ نہ صرف یہ کہ اس کی زندگی محدود نہیں تھی، بلکہ اس کی فکر اور اس کے عمل کی وسعت نے پوری دنیا کا احاطہ کر رکھا تھا، نہ صرف یہ کہ وہ تھکا نہیں تھا بلکہ وہ پوری ہمت اور پوری توجہ کے ساتھ عظیم کام انجام دے رہا تھا، نہ صرف یہ کہ اس کا جوش کم نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے جذبے کی رہنمائی اس کا تجربہ اور اس کی دانائی کر رہی تھی اور نہ صرف یہ کہ اسے اپنے معاشرے کی فکر تھی بلکہ اسے اس سے بہت آگے دنیا کے تمام مظلوموں کی فکر تھی۔

یہ کہانی تیونس کے محمد زواری کی ہے جو ایک مذہبی گھرانے میں پروان چڑھا، بچپن سے دین دار زندگی گزاری، دین دشمن آمر زین العابدین بن علی کے خلاف جد و جہد کے سبب اپنا ملک چھوڑ کر شام جانا پڑا، یہاں تک کہ تیونس میں آنے والے انقلاب کے بعد اس کی واپسی ہوئی۔ تکنیکی علوم میں مہارت اس کا طرہ امتیاز تھی، واپس آنے کے بعد سب کو لگا کہ وہ ہر چیز سے الگ ہو کر اپنے پیشہ وارانہ کام میں مگن ہو گیا ہے لیکن کسے خبر تھی کہ اس نے خدا تک پہنچنے کا راستہ ڈھونڈ لیا ہے، انھیں کتابوں اور انھیں سرکٹس میں وہ خدا کو ڈھونڈ لے گا اور یونہی چھوٹے بڑے جہاز بناتے بناتے ایک دن خود بھی پرواز کر جائے گا۔ جب سے اس نے محروم ترین فلسطینیوں کے لیے ڈرون بنانے میں مدد کرنے کا فیصلہ کیا تھا اس کے لیے دنیا کی ہر چیز بے معنی ہو گئی تھی، اپنا شعبہ، اپنا کام اس کے لیے سب سے مقدس چیز بن چکی تھی جس کے بارے میں اسے یقین تھا کہ یہ اسے خدا تک پہنچا دے گی۔

زواری نے اپنے علم اور ہنر کو دنیا کے سب سے مظلوم گروہ یعنی فلسطینیوں کی مدد کے لیے استعما ل کرنے کا سوچا، اور جب وہ سمجھ گیا کہ اس کی زندگی کا کام یہی ہے تو وہ ہر چیز سے بے نیاز ہو گیا اور خود کو پابند کر لیا کہ اپنی تمام تر صلاحیتیں اور ایک ایک لمحہ اس کام میں وقف کر دے۔ یہاں تک کہ وہ اس قابل ہو گیا کہ اپنے ایرو ناٹکس کلب میں ایرانی ساختہ ڈرون ابابیل کو مزید ترقی دے اور اسے اس قابل بنا سکے کہ ۲۰۱۴ء میں غزہ پہ ہونے والے اسرائیلی حملے کے جواب میں تحریک مزاحمت فلسطین، حماس یہ ڈرون استعمال کر کے اسرائیل کو حیران کر سکیں۔ اسرائیل کے لیے اول تو یہ یقین کرنا بہت مشکل تھا کہ غزہ کا محاصرہ کر کے جن لوگوں تک انھوں نے دواؤں اور خوراک کی رسد بھی روک رکھی ہے وہاں ڈرون پہنچ گیا اور دوسرا یہ کہ یہ اس ڈرون میں حماس نے تبدیلیاں کر لی ہیں۔

بالآخر دشمن نے ڈھونڈ نکالا کہ اس سب کے پیچھے کس کا دماغ کام کر رہا ہے، تیونس میں بیٹھے محمد زواری کی شناخت کر لی گئی اور ایک دن معمول کے مطابق یونی ورسٹی کے راستے ہی میں اس کے لیے جنت کا دریچہ کھل گیا جس میں وہ پر سکون وجود اور مطمئن روح کے ساتھ گزرتا چلا گیا۔ایک ٹرک نے محمد کی گاڑی کا راستہ روکا اور اسی دوران ان کے پاکیزہ جسم میں فولاد کے ۲۰ ٹکڑے پیوست کر دیے گئے۔ آہنی ارادے اور مضبوط اعصاب کا مالک یہ فرد شاید اتنی آسانی سے جان نہ دیتا یا شاید دشمن مطمئن ہونا چاہتا تھا کہ کسی صورت یہ زندہ نہ بچ جائے۔ محمد کے وجود میں ان گولیوں سے اتنے سوراخ بن گئے کہ اس کی روح کو رہائی کا راستہ مل سکے اور بالآخر وہ اپنے بنائے ہوئے ڈرونز کی حدوں سے بہت اوپر پرواز کر گیا، اس کے چہرے پہ موجود اطمینان مزاحمت کے کامیاب مستقبل کی خبر دے رہا تھا گویا وہ دیکھ رہا تھا کہ یہ سفر رکنے والا نہیں ہے اور ان جہازوں کی پروازیں اتنی بلند ہو جائیں گی کہ سر زمین مقدس کی آزادی کا پیش خیمہ بن سکیں۔

آس پاس کے کیمروں کو ہیک کر کے ان کا ریکارڈ غائب کر دیا گیا تھا لیکن حماس نے اعلان کر دیا کہ محمد کا قتل اسی قوم نے کیا ہے کہ جس کا خاصہ ہی انبیا و خاصان خدا کا قتل رہا ہے۔ محمد کی شہادت کے بعد دنیا کو خبر ہوئی کہ دنیا و ما فیہا سے بے خبر یونی ورسٹی کا یہ عام سا پروفیسر حماس کے ڈرون ونگ کا سربراہ اور اسرائیل کی نظر میں ۲۰۱۴ کی جنگ میں ان کی ناک رگڑنے کا مجرم ہے۔

نوٹ: یہ کہانی شہید کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے فکشن اور حقیقی واقعات کے امتزاج سے بنائی گئی ہے جس کا محرک ۲۰۲۱ء کی جنگ میں حماس کی طرف سے الزواری ڈرون کے استعمال سے دشمن کو حیران کرنا تھا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .