۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 398790
10 مئی 2024 - 18:15
غزہ

حوزہ/بابا نے بتایا تھا کہ یہ کمپنیاں جن کمپنیوں کو پیسے دیتی ہیں وہ اسرائیل کی مدد کرتے ہیں اور اتنے سارے پیسے جمع ہوتے ہیں تبھی اسرائیل جہاز اور میزائل خرید سکتا ہے تاکہ فلسطینیوں پہ ظلم کرے۔

تحریر: سید زین عباس زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی|

احمد بھائی کی شادی کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں، سب بچے بہت پرجوش تھے۔ ہاشم بھی بہت خوش تھا۔ سب ایک ایک دن گن رہے تھے، بالآخر شادی کے دن آگئے۔ سب سے پہلے میلاد ہوا، سب نے بہت خوشی سے قصیدے پڑھے، ہاشم نے ایک اچھی سی منقبت یاد کر کے پڑھی جس پہ اسے بہت شاباش ملی۔ پھر بارات کا موقع آیا اور سب تیار ہو کر گاڑیوں میں بیٹھے، ہاشم احمد بھائی کے ساتھ ہی گاڑی میں بیٹھ کر گیا اور سب سے آگے آگے چل رہا تھا۔ بھابھی کے گھر والوں نے بہت اچھا سا استقبال کیا اور پھر کھانے کا وقت آگیا۔

کھانا شروع ہو چکا تھا، میزبان ایک ایک میز پہ کھانے کے خوان لگا رہے تھے، اچانک کچھ ایسا دیکھنے کو ملا کہ ہاشم کا موڈ شدید خراب ہو گیا۔ کھانے کے بعد میز پر کولڈ ڈرنک رکھی گئی اور ہاشم کو پتہ تھا کہ یہ اسی کمپنی کی کولڈ ڈرنک ہے جو اسرائیل کی مدد کرتی ہے۔ ہاشم کو ایک دم سے فلسطین کے مظلوم بچے یاد آگئے جن کو اسرائیل کے ظالم فوجی مار رہے ہیں، ان تک کھانا نہیں پہنچنے دے رہے اور وہ مسلسل بھوکے پیاسے اپنی جان بچاتے پھر رہے ہیں۔

بابا نے بتایا تھا کہ یہ کمپنیاں جن کمپنیوں کو پیسے دیتی ہیں وہ اسرائیل کی مدد کرتے ہیں اور اتنے سارے پیسے جمع ہوتے ہیں تبھی اسرائیل جہاز اور میزائل خرید سکتا ہے تاکہ فلسطینیوں پہ ظلم کرے۔

تھوڑی دیر میں بابا اٹھ کر دوسری میز پر ایک دوست کے پاس چلے گئے اور ہاشم نے دیکھا کہ اس میز پہ بیٹھے باقی لوگ ایک ایک کر کے بوتل گلاس میں ڈال کر پی رہے ہیں، ہاشم کے پاس بھی شیطان آیا اور بہانے بتانے لگا۔

دیکھو، یہ بوتل تو اب خریدی گئی ہے، پیسے تو چلے گئے، تمہارے پینے سے کیا فرق پڑے گا۔

ہاشم نے سوچا بات تو ٹھیک ہے، اس نے پاس بیٹھے ایک انکل سے کہا کہ اسے بھی تھوڑی سی بوتل ڈال دیں۔

لیکن پھر اچانک اسے احساس ہوا کہ وہ میدان جنگ میں ہے جہاں فلسطینی بچے اسرائیلی فوجیوں کے ڈر سے بھاگ رہے ہیں اور اس سے مدد مانگ رہے ہیں، اسے یہ گلاس اچانک خون سے بھرا نظر آنے لگا، اس نے سوچا کہ اگر چہ یہ بوتل اس نے نہیں خریدی لیکن اسے اس سے نفرت کا اظہار تو کرنا چاہیے، اس نے سوچا کہ مجھے تو سب کو بتانا چاہیے اور اگر میں خود یہ بوتل پی لوں گا تو میں تو خود ہی ان کے ساتھ مل جاؤں گا۔

اب ایک طرف شیطان کی اسرائیلی فوج تھی جو اس کو اپنے ساتھ ملانا چاہ رہی تھی اور دوسری طرف فلسطین کے ننھے بچے تھے ۔ ایک طرف ٹینک اور جہازوں کے گولے تھے اور دوسری طرف اپنی جان بچانے والے معصوم تھے۔ ہاشم کو لگا کہ اگر وہ اس گلاس کو ہاتھ لگائے گا تو اس کے ہاتھ پہ بھی وہی خون لگ جائے گا۔

ہاشم خود اس جنگ کا حصہ تھا، ا س نے سوچا کہ اس بوتل کا ذائقہ کتنی دیر اس کے منھ میں رہے گا لیکن اگر اس نے شیطان کی بات مان لی تو پھر وہ خود اپنے دوست فلسطینی بچوں کے قتل کا حصہ بن جائے گا۔ اسے پتہ تھا کہ کولڈ ڈرنک بہت مزے کی ہوتی ہے لیکن وہ شیطان کا ساتھ نہیں دینا چاہتا تھا۔

" بیٹے آپ کچھ کھا کیوں نہیں رہے؟" ساتھ بیٹھے انکل نے ہاشم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

" جی کھا رہا ہوں"

"اور یہ کولڈ ڈرنک تو گرم ہو گئی آپ کی"

" یہ فلسطینیوں کی دشمن کمپنی کی ہے انکل، میں نہیں پیوں گا انکل"

یہ بات سنتے ہی، سب ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ، بابا جو ہاشم کے پیچھے آ چکے تھے، یہ سن کے خوشی سے جھوم اٹھے اور ایک دم اس کے سرپہ پیار کیا۔

" آپ کو پتہ ہے، آپ یہ جنگ جیت چکے ہیں اور اسی جذبے سے جلد ہی اسرائیل کو شکست ہو گی اور فلسطین کے پاکیزہ بچے مسجد اقصی ٰ کو آزاد کروائیں گے" بابا نے کہا تو ہاشم نے زور سے نعرہ لگایا"ان شاءاللہ "

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .